مزید خبریں

مزدور تحریک کی تباہی کا ذمہ دار کون؟

مزدور تنظیم کاری کی ابتدا صنعت کاری سے ہوئی۔ غلامانہ اور جاگیر دارانہ نظاموں میں مزدور غلامی کی شکل میں محنت کرتے تھے۔ صنعت کاری سے آلات پیداوار تبدیل ہوگئے اور ہنر مند کاریگروں کی ضرورت پڑی مختلف علاقوں سے محنتی اور ہنر مند ایک چھت کے نیچے جمع اور پیداوار میں حصہ دار بنے تو جبر کے خلاف منظم ہونے اور حقوق مانگنے کا شعور بھی بیدار ہوا۔ طاغوتی قوتوں نے ظلم کے ساتھ مزدوروں کو دبانے کی کوشش کی لیکن وہ ناکامی سے دو چار ہوئی۔ دنیا میں تیزی سے ہونے والی صنعت کاری نے سیاسی ، سماجی، ثقافتی اور معاشی ماحول ایک دم سے پلٹ کر رکھ دیا اور دنیا نے مزدوروں کی طاقت کو تسلیم کرتے ہوئے ایسے قوانین بنائے جن میں انہیں منظم ہونے، اجتماعی سودے کاری کرنے اور ہڑتال پر جانے تک کی آزادی ملی۔ ان آزادیوں میں سوویت یونین میں سوشلسٹ انقلاب کا بہت بڑا حصہ تھا۔ پاکستان جاگیرداری، قبائلی نظام کے علاقوں پر مشتمل تھا صنعت نہ ہونے کے برابر تھی۔ ریلوے واحد ادارہ تھا جہاں ٹریڈ یونین کام کر رہی تھی۔ ایوب خان کے دور میں پاکستان انڈسٹریل ڈیویلپمنٹ کارپوریشن کے تحت صنعت سازی جا آغاز کیا گیا تو پہلے سے بڑے تاجروں کو ہی بینکس قرضہ کے ساتھ صنعتیں دے دی گئیں جن کے مالکان کی کوئی تربیت نہیں تھی وہ مزدوروں کو اجرتی غلاموں سے زیادہ نہیں سمجھتے تھے۔ مزدور قوانین کے باوجود کرپٹ بیوروکریسی آجروں کی آلہ کار کے طور پر آپریٹ کرتی رہی۔ عالمی سیاست میں مزدور تحریک سرمایہ داری مخالف تھی بھی اور سمجھی بھی جاتی تھی چونکہ پاکستان امریکی بلاک کا حصہ تھا اور فرنٹ لائن اسٹیٹ کی حیثیت رکھتا
تھا۔ اس لیے حکومت نے ابتدا سے ہی مزدور تحریک کو طاقت سے کچلنے پر کمر بستہ رہی۔ ایوب خان کے خلاف تحریک کے سالوں میں مزدور تحریک نمایاں ہوئی مگر ذوالفقار علی بھٹو کے اقتدار میں آنے اور صنعتی و تجارتی اداروں کے قومیانے کی بغیر تیاری پالیسی نے ملکی معیشت کو تو ایک دم کھڑا کیا مگر بھٹو کے سیاسی نعروں میں سرکاری ہونے والے اداروں میں مادر پدر آزاد کر دیا ان اداروں کے انتظامی افسران جن کا تعلق بیورو کریسی سے تھا ساری ذمہ داری ٹریڈ یونین پر ڈال کر خود صاف شفاف بنے رہے ٹریڈ یونین کو مراعات اور کرپشن اسی دور میں پروان چڑھی۔ بھٹو اور بعد ازاں ضیاالحق کے دور میں ٹریڈ یونین کو پڑنے والی مار کے بعد ٹریڈ یونین تمام تر کوششوں کے بعد اٹھ نہیں پائی۔ پبلک سیکٹر کی ٹریڈ یونینیں حکمراں پارٹیوں کے ساتھ منسلک ہونا شروع ہوئیں جس نے مزدوروں کو جدوجہد کے بغیر مراعات دلوانے شروع کیں۔ یہ یونینیں اداروں کی ترقی، مستقبل سے لا تعلق رہیں۔ ادارہ انتظامی کرپشن کا شکار ہوا۔ الزام مزدوروں پر لگایا جاتا رہا۔ مستقل ملازمین ٹریڈ یونین کے سایہ تلے کام چور ہوتے گئے۔ جن کے متبادل کنٹریکٹ پر بھرتی شروع ہوئی۔ جس نے مزدوروں میں تقسیم پیدا کی۔ پبلک سیکٹر کے سیکڑوں اداروں کی نجکاری کے بعد تو مزدور تحریک کا جنازہ ہی نکل گیا۔ موجودہ صورت حال میں مستقل ورکرز کی انتہائی کم تعداد ملازم ہے اکثریت کنٹریکٹ ، ڈیلی ویجز، ہیں بہت سا کام آؤٹ سورس کیا جارہا ہے جس سے ہوم بیسڈ ورکرز کی تعداد بڑھ رہی ہے فیڈریشنز، ٹریڈ یونینز اپنی بچی ہوئی طاقت پر تکیہ کیے ہوئے ہیں ان کے ایجنڈے پر جدوجہد مفقود ہوگئی ہے ۔ مزدور تحریک بنانے کے لیے مزدوروں کو بلا امتیاز مستقل، کنٹریکٹ، ڈیلی ویجز، ہوم بیسڈ، سرکاری، نجی ، بلا امتیاز صنف مشترکہ جدوجہد کا ایجنڈا بنانا اور اس پر عمل کرنا ہوگا۔ ملک کے نظام میں اپنی طاقت منوائے بغیر مزدور تحریک اپنے مطالبات منوانے کی پوزیشن میں نہیں آسکے گی۔