مزید خبریں

کرنسی کی گراوٹ معیشت کوتباہ کر رہی ہے

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایکسچینج ریٹ طریقہ کار مقامی کرنسی کی گراوٹ کے سلسلے کو روکنے میں ناکام رہا ہے امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی گراوٹ کا سفر ختم ہوتا نظر نہیں آتا کیونکہ رواں سال کے دوران پاکستانی کرنسی کی قدر میں تقریباً 26 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے کہا کہ منگل کو پاکستانی روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت 238.91 روپے تھی اور ایک دن پہلے 237.91 روپے کے مقابلے میں اس کی قیمت میں ایک روپے کا اضافہ ہوا۔دریں اثنا، کرنسی ڈیلرز نے ڈالر کی قیمت 240 روپے بتائی جو 28 جولائی کو انٹربینک مارکیٹ میں 239.50 روپے کی بلند ترین سطح سے زیادہ ہے۔ ایکسچینج ریٹ طریقہ کار مقامی کرنسی کی گراوٹ کے سلسلے کو روکنے میں ناکام رہا ہے جس نے برآمدی سیکٹر سمیت کاروبار کو غیر مستحکم کر دیا ہے، ڈالر کی قدر میں مسلسل اضافہ درآمدی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ کر رہا ہے۔معیشت کے مشکل وقت سے نکلنے کے حکومت کے لمبے چوڑے دعوؤں کے باوجود روپے کی قدر میں مسلسل گراوٹ معیشت کی خراب صورتحال کی منظرکشی کرتی ہے۔ڈالر کی قدر میں پچھلے 5 1سیشنز میں روپے کے مقابلے میں 8.12 فیصد کا اضافہ ہو چکا ہے اور 14 مئی کے بعد سے اس کی قدر میں 36 فیصد اور نئے مالی سال کے آغاز کے بعد سے 14 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کے صدر محمد ادریس نے ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی کی بے قدری اور اب تک کی بدترین مہنگائی کے اثرات کو اجاگر کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ غیر حل شدہ معاشی مسائل نے پاکستان کے مستقبل کو شدید خطرات سے دوچار کر دیا ہے اور ملک ناقابل واپسی دوراہے پر پہنچ چکا ہے لہٰذا اعلیٰ حکام کو قومی ترجیحات کواہمیت دیتے ہوئے بیمار معیشت کو زیادہ پائیدار طریقے سے ٹھیک کرنا ہوگا۔ایک بیان میں کے سی سی آئی کے صدر نے نشاندہی کی کہ جنوری 2022 سے پاکستانی روپیہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں اپنی قدر کا تقریباً 35 فیصد کھو چکا ہے جو یکم جنوری کو 178.50 روپے تھا اور فی الوقت240 روپے سے اوپر ہے جو معیشت کی انتہائی خوفناک صورتحال کو ظاہر کرتا ہے نیزکاروبار کرنے کی زائد لاگت اور مہنگائی صنعتی کارکردگی پر تباہ کن اثرات کا باعث بنیںگے۔ انہوں نے کہا کہ صنعتوں اور عوام کے لیے مصائب اور مشکلات اس وقت مزید بڑھ جاتی ہیں جب انہیں کسی نہ کسی طرح بڑھتے ہوئے ڈالر اور اس کے نتیجے میں مہنگائی کے اثرات کو برداشت کرنے کے علاوہ بجلی کے انتہائی زیادہ بل ادا کرنے پڑتے ہیںجو عوام اور صنعتوں دونوںکے لیے مکمل طور پر ناقابل برداشت ہیں اس کی وجہ سے ایس ایم ایزکی ایک بڑی تعداد بند ہو گئی ہے اور بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ صرف اگست ماہ 2022 میں پاکستان میں سال بہ سال سی پی آئی افراط زر 27.3 فیصد دیکھا گیاجو کہ بہت زیادہ ہے جبکہ رواں مالی سال کے پہلے دو ماہ یعنی جولائی اور اگست میں 11.06 ارب ڈالر کی درآمدات کے مقابلے میں برآمدات صرف 4.7 ارب ڈالر رہیں تاہم درآمدات میں کمی کے باوجود محصولات کی وصولی میں اضافہ دیکھا گیا لیکن اسے ہر گزایک کامیابی نہیں سمجھا جا سکتا جیسا کہ یہ خالصتاً پاکستانی روپے کی بے قدری کی وجہ سے ہوا۔محمد ادریس نے مزید کہا کہ جولائی 2021 کے مقابلے جولائی 2022 میں درآمدات میں 10 فیصد کمی کے باوجود کسٹمز ڈیوٹی کی وصولی میں 3 فیصد یا 2 ارب روپے کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔لگژری غیر ضروری مشینری (ایچ ایس 84 اور 85) اور خام مال پر پابندی کے اثرات جولائی 2022 کی درآمدات میں واضح طور پر نظر آئے جب ماہ بہ ماہ کی بنیاد پر 37 فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی اور سال بہ سال کی بنیاد پر درآمدات میں 10 فیصد کمی ہوئی تاہم اگست 2022 میں پاکستان کی درآمدات میں تقریباً 6 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا جو جولائی 2022 کے مقابلے میں 21 فیصد زیادہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ خام مال اور مشینری پر پابندی لگا کر تجارت میں رکاوٹ ڈالنا ایک تباہ کن مشق ثابت ہوئی جس نے صرف تاجروصنعتکار برادری کے لیے مشکلات پیدا کیںجیسا کہ کے سی سی آئی کو درآمد کنندگان کی طرف سے مسلسل شکایات موصول ہو رہی ہیں جن کے کنسائنمنٹس کو اسٹیٹ بینک کی جانب سے بندرگاہوں سے کلیئرنس کے لیے پیشگی منظوری لینے کی پابندیوں کی وجہ سے کلیئر نہیں کیا اور اس تاخیر کے نتیجے میں اضافی ڈیمریج اور ڈیٹینشن چارجز کی وجہ سے درآمد کنندگان کو بھاری نقصان ہوا۔ اسٹیٹ بینک کی جانب سے دالوں اور زرعی اجناس کی درآمدات میں رکاوٹیں ڈالنا ایک انتہائی سنگین مسئلہ ہے جس کی وجہ سے ملک میں فوڈ سیکیورٹی کا مسئلہ پیدا ہوگا بالخصوص ایسے حالات میںجب ذراعت کے شعبے کو بارشوں و سیلاب نے مکمل طورپر تباہ کردیا ہو۔ اسٹیٹ بینک کے عملی اقدامات ملکی معیشت کے لئے تباہ کن ہیں۔انہوں نے خبردار کیا کہ کاروباری لاگت میں ریکارڈ اضافہ، روزمرہ زندگی کے بڑھتے اخراجات، زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی، پاکستانی روپے کی مسلسل بے قدر، سیلاب اور ملک میں وبائی امراض کے پھیلنے سے پاکستان کو انتہائی مشکل صورتحال کا سامنا ہے۔یہ بات تشویشناک ہے کہ مستقبل قریب میں یہ مسائل حل ہونے کے آثار نظر نہیں آ رہے اس لیے پالیسی سازوں کو چاہیے کہ وہ جنگی بنیادوں پر پورے منظر نامے کا جائزہ لیں اور فوری طور پر ایک مؤثر لائحہ عمل تیار کریں
سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر حسنین خورشید احمد نے پیسکو کی جانب سے ناروا اور غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کے دورانیہ میں اضافہ پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے اورکہا ہے کہ لوڈمینجمنٹ کے نام پر گھنٹوں بجلی لوڈشیڈنگ کا سلسلہ فوری طور پر بند کیا جائے بصورت دیگر بزنس کمیونٹی احتجاج پر مجبور ہوگی۔یہ مطالبہ انہوں نے گذشتہ روز صنعت کاروں اور تاجروں کے ایک مشترکہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر سرحد چیمبر کے سینئر نائب صدر عمران خان ،نائب صدر جاوید اختر سمیت صنعتکاراور تاجر رہنما بھی موجود تھے۔سرحد چیمبر کے صدر حسنین خورشید احمد نے کہا کہ گھنٹوں اور طویل دورانیہ کی بجلی بندش سے تمام سیکٹرز بری طرح متاثر رہی ہے۔صنعتی اور کاروباری سرگرمیاں مکمل ٹھپ ہوکر رہ گئی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ بجلی کی عدم فراہمی کے باعث متعدد صنعتیں اور کاروبار چلانا مشکل ہوگیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملک کی معیشت پہلے ہی گوناگوں مشکلات کا شکار ہے ایسی صورت حال میں صنعت کاروں اور کاروباری طبقہ کی مشکلات میں اضافہ کرنے اور ملکی معیشت کو مزید تباہی کے دہانے کی طرف دھکیلنے کے مترادف ہے۔سرحد چیمبر کے صدر حسنین خورشید احمد نے کہا کہ بجلی صنعتوں کے لئے خام مال کے طور پر استعمال ہوتی ہے اگر بجلی کی فراہمی کو یقینی نہیں بنایا جاتا تو ملکی معیشت ،برآمدات اور کاروبار پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ انہوں نے حکومت کی جانب سے بار باربجلی کے نرخوں میں بتدریج اضافہ کی شدید الفاظ میں مذمت اور کہاکہ خیبر پختونخوا جہاں پر سستی بجلی پیدا ہوتی ہے یہاں کے عوام کو مہنگے داموں بجلی فروخت کرنے کے بعد بھی بجلی میسر نہیں ہے جو موجودہ مرکزی اتحادی حکومت کی صنعت اور کاروبار دشمن پالیسیوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔انہوں نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا وہ پیسکو کو فوری طور پر خیبر پختونخوا میں غیر اعلانیہ اور طویل لوڈشیڈنگ کا سلسلہ بند کرنے کے لئے ہدایات جاری کریں بصورت دیگر سرحد چیمبر اور بزنس کمیونٹی صوبہ بھر میں احتجاج پر مجبور ہوگی۔ایمپلائرز فیڈریشن آف پاکستان (ای ایف پی) کے صدر اسماعیل ستار نے صنعتوں کے لیے مشینری اور صنعتی خام مال درآمد کرنے کے لیے بینکوںکی جانب سے ایل سی لیز نہ کھولنے اور تاخیر کے باعث تاجر برادری کو درپیش مشکلات پر تشویش کا اظہا کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان مسلسل یہ دعویٰ کررہاہے کہ مشینری اور خام مال درآمد کرنے پر کوئی پابندی عائد نہیں لیکن اس کے برعکس اسٹیٹ بینک کی ہدایات پر بینکوں کی جانب سے عمل درآمد نہیں کیا جارہا لہٰذا مرکزی بینک اس کا نوٹس لے اور بلا تاخیر ایل سیز کھولنے کو یقینی بنائے۔اسماعیل ستار نے ایک بیان میں کہا کہ صنعتی استعمال کے لیے درآمد کی جانے والی مشینری اور صنعتی خام مال کے لیے ایل سی نہ کھولنے کے سلسلے میں ممبر ایسوسی ایشنز اور تاجر برادری کی جانب سے متعدد شکایات موصول ہوئی ہیں۔ ایل سی کھولنے میں تاخیر کی وجہ سے فوڈ، فارماسیوٹیکل، اسٹیل، آٹوموبائلز، ٹیلی کام، ہوم اپلائنسز وغیرہ کو منفی نتائج کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔متعدد آٹو مینوفیکچررز نے ایل سی کی منظوری میں تاخیر کی وجہ سے پیداوار معطل کر دی ہے جبکہ صنعتوں کو خام مال کی قلت کا سامنا ہے جس سے پیداوار متاثر ہو رہی ہے۔ایسے وقت میںجب پاکستان کو پہلے ہی مہنگائی کا سامنا ہے۔ صنعتوں کے لیے ضروری اشیاء درآمد کی اجازت نہ دینے سے معاشی صورتحال مزید سنگین ہوجائے گی۔حکومت اور اسٹیٹ بینک کو تجارتی عمل میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی بجائے صنعتی پیداوار کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔اسماعیل ستار نے نشاندہی کی کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے درآمدی ادائیگیوں کو کلیئر کرنے میں تاخیر کی وجہ سے صنعتی پیداوار رکاوٹ کا شکار ہو رہی ہیں۔پیداوار میں یہ تاخیر پاکستانی روپے کی قدر میں کمی کے ساتھ پاکستان کے کاروباری ماحول میں غیر یقینی صورتحال پیدا کر رہی ہے۔پاکستان میں صنعتیں درآمدات کے ذریعے خام مال کے حصول پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہیںلہٰذا تاخیر کے نتیجے میں برآمدات پر مبنی صنعتیں شدید نقصان سے دوچار ہیں۔معیشت کے لیے برآمدات پر مبنی ترقی بہت ضروری ہے اورملک کو برآمدات سے چلنے والی معیشت کے بغیر پاکستان کا ترقی پذیر، خود کفیل معیشت بننا تقریباً ناممکن ہے۔یہ شکایات بھی عام ہے پاکستانی لیکن اس جانب کو ئی توجہ نہیں ہے