مزید خبریں

ہم جنس پرستی روکنے کیلیے ٹرانسجینڈر ایکٹ کی شق 3،ذیلی شق 2 میں ترمیم ناگزیر ہے

کراچی (رپورٹ: محمدانور)ہم جنس پرستی روکنے کے لیے ٹرانسجینڈر ایکٹ کی شق نمبر3 اور ذیلی شق نمبر2 میں ترمیم ناگزیر ہے‘ قانون کے تحت اپنی مرضی کی جنسی شناخت کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنے سے قوم لوط کے اذہان کے لوگوں کی حوصلہ افزائی ہوگی ‘ مادر پدر آزاد جماعتوں نے متنازع شقیں شامل کرائیں‘ جماعت اسلامی نے آواز اٹھائی‘ میڈیکل ٹیسٹ کے بعد صنف کا فیصلہ کیا جائے۔ ملک میں ٹرانسجینڈر کے ایکٹ کی قابل اعتراض شق کے خلاف جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے ترمیم کے لیے آواز اٹھائی اور مطالبہ کیا ہے کہ اس ایکٹ میں ترمیم کی جائے۔ جسارت نے سینیٹر مشتاق احمد کے مطالبے پر ملک کی اہم شخصیات سے رابطہ کیا اور سوال کیا کہ ’’کیا ٹرانسجینڈر ایکٹ کی قابل اعتراض شق میں ترمیم ضروری ہے؟‘‘ ان شخصیات میں ممتاز کالم نویس، سابق بیورو کریٹ اوریا مقبول جان، ممتاز عالم، پروفیسر اینڈ سربراہ شعبہ اکاؤنٹنگ اینڈ فنانس، انسٹیٹیوٹ آف بزنس مینجمنٹ کراچی ڈاکٹر امام الدین، شعبہ اسلامی تعلیمات کی پروفیسر ڈاکٹر جہاں آرا لطفی، سابق بیورو کریٹ و ڈریپ کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر عرفان مصطفی اور اسلامک لائرز فورم کے صوبائی سیکرٹری محمد عامر ایڈووکیٹ شامل ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹرانسجینڈر ایکٹ اگرچہ4 سال قبل منظور کیا جانے والا ایک قانون ہے جس کی بعض شقیں اسلامی تعلیمات کے خلاف اور اسلامی قوانین اور معاشرے کے اصولوں کے منافی ہیں۔ اوریا مقبول جان کا کہنا تھا کہ یہ ٹرانسجینڈر بل نہیں بلکہ یہ ایک قانون ہے جو اس ملک میں 22 مئی 2018ء سے نافذ ہے جسے قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر پاس کیا تھا اور جس کے خلاف3 ممبران نے تقریرکی لیکن کسی نے بھی اس کے خلاف ووٹ نہیں دیا‘ اس بل کی ہم جنس پرستی والی دفعات کے خلاف ہم 2 سال قبل شریعت کورٹ گئے۔ مشتاق احمد خان نے کہا کہ ہم نے سینیٹ میں اپنی آواز اٹھا کر حکومت اور قوم کو اس بل کے معاشرے پر ہونے والے نقصانات سے آگاہ کردیا ہے‘ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اور ایوان سے کیا فیصلہ آتا ہے‘ قانون کے تحت اپنی مرضی کی جنسی شناخت کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنے سے قوم لوط کے اذہان کے لوگوں کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ ڈاکٹر امام الدین نے کہا کہ یہ ایکٹ ہمارے مسلم معاشرے کے لیے زہر قاتل ہے‘ سینیٹر مشتاق احمد نے اس ایکٹ کے قابل اعتراض شق کے خلاف آواز اٹھاکر قوم کوجگانے کی کوشش کی ہے‘ قابل اعتراض شق کو ختم کرنے کے لیے ہم سب کو متحد ہوکر اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے‘ تمام مسلمانوں کا دینی فریضہ ہے کہ وہ اس ایکٹ کو ختم کرنے کے لیے اپنی اپنی سطح پر مزاحمت کریں۔ پروفیسر جہاں آرا لطفی کا کہنا تھا کہ پہلے تو ہم یہ سمجھ لیں کہ اللہ تعالی نے بنیادی طور پر 2 ہی جنس پیدا کی ہیں‘ ایک آدم اور دوسری حوا یعنی مرد و عورت۔ لیکن شاید اپنی دیگر نشانیوں کی طرح ایک تیسری جنس سے تعلق رکھنے والا فرد بھی پیدا کرکے دکھایا جو بہت کم ہی ہوتا ہے‘ یہ ہر زمانے میں پیدا ہوئے جن کو ہمارے ہاں خواجہ سرا یا مخنث کہا جاتا ہے‘ جدید نظام معاشرت کی وجہ سے یہ طبقہ قانون سازی نہ ہونے کے باعث اپنی زندگی گزارنے کے لیے خواہش کے باوجود کوئی باعزت پیشہ اختیار کرنے سے قاصر تھا اور مجبور ہوکر پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے ناچنے گانے کا سہارا لینے پر مجبور تھا‘ بہت کم ہی انہیں دوسرے پیشوں کو سیکھنے کی سہولت میسر ہے‘ اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ان کی پیدائش کے بعد سے ہی ان پر ان کے اپنے گھر میں ہی محبتوں کے دروازے بند ہوجاتے ہیں‘حالانکہ ان کا ایسا ہونے میں ان کا اپنا کوئی کردار نہیں ہوتا‘ اس طرح تاریک راہوں کے مسافر بن جاتے ہیں کیونکہ ہمارا معاشرہ انہیں کوئی باعزت روزگار یا مقام دینے کو تیار نہیں ہوتا‘ ٹرانس جینڈرز کی اصطلاح ہر گز ان لوگوں کے لیے نہیں بلکہ یہ اصطلاح بالکل مختلف افراد کے لیے استعمال ہوتی ہے۔حیرت اس بات پر ہے کہ ‘ٹرانس جینڈر” کی اصطلاح کو اکثر لوگ خواجہ سراؤں کے لیے استعمال کرتے ہیں، جبکہ یہ غلط ہے۔ ٹرانس جینڈر دراصل وہ افراد ہوتے ہیں جو بنیادی یا پیدائشی طور پر تو خواجہ سرا نہیں ہوتے بلکہ مکمل مرد یا مکمل عورت کے روپ میں پیدا ہوتے ہیں لیکن ہارمونز کی کمی بیشی اور نفسیاتی عوارض کے باعث بعد ازاں اپنی مخالف جنس میں شامل ہوجاتے ہیں۔ ٹرانس جینڈر کا مطلب بھی یہی ہے کہ ایسا فرد جس نے اپنی جنس کو ٹرانسفر کرلیا ہو‘ ایسے افراد جنس کی تبدیلی کے لیے آپریشن کروا کر مخالف جنس میں شامل ہو جاتے ہیں۔ پروفیسر جہاں آرا کا کہنا تھا کہ ایسا بہت زمانے سے ہوتا آرہاہے‘ صرف ایک بار 30، 35 برس پہلے ایسے ایک آپریشن کا سنا تھا کہ جو لاہور میں رہنے والی ہماری ایک ملنے والی خاتون نے اپنی کالج فیلو کا بتایا تھا کہ اس کی جنس کی تبدیلی میڈیکل بورڈ کی رپورٹ کے مطابق بذریعہ آپریشن ہوئی تھی‘ تو سننے والے کانوں پر ہاتھ رکھتے اور توبہ کرتے، استغفار طلب کرتے تھے‘ ٹرانس جینڈرز ایکٹ دراصل حقیقی خواجہ سراؤں کو تحفظ اور حقوق دلانے کے لیے پیش کیا گیا تھا‘ 2018 ء میں منظور ہونے والا ٹرانس جینڈر ایکٹ انہیں قانونی طور پر بطور شہری قومی دھارے میں لانے کا سبب بنا‘ اس قانون کے منظور ہونے کے بعد ایسے لوگوں نے شناختی کارڈ بنوائے‘ اسکولوں میں داخلہ لیے‘ ڈرائیونگ لائسنس بنوائے‘ جائداد میں حصہ ملا‘ اگر کوئی انہیں قابل گرفت مقاصد کے لیے استعمال کرے تو اس پر ملوث عناصر کو سزا دی جائے گی‘ یہ تو ایک رخ ہوا۔ یہ بھی تجویز دی گئی تھی کہ ایسے فرد میں جو صفات زیادہ ہوں اس کو اسی جنس میں شامل کیا جائے۔ یعنی مردانہ صفات زیادہ ہوں تو مردوں میں اور عورت کی صفات زیادہ ہوں تو عورتوں میں شامل کرلیا جائے لیکن ایسا صرف تصویر کا ایک رخ ہے‘ دوسرا رخ بہت بھیانک ہے‘معاملہ کچھ یوں ہے کہ اس قانون کی تشکیل کے دوران مادرپدر آزاد جماعتوں نے اس میں کچھ غیر فطری اور متنازع شقیں شامل کروادیں۔ جیسے کہ اس بل کی شق نمبر 3 اور اس کی ذیلی شق نمبر 2 میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی شخص کی جنس کا تعین اس کی اپنی مرضی کے مطابق ہوگا‘ یہاں سے ہم جنس پرستی کی راہ ہموار ہوتی ہے‘ اب اگر کوئی مرد کسی مرد سے شادی کرنا چاہے تو وہ نادرا میں جاکر ایک جھوٹا بیان حلفی جمع کروائے کہ مجھ میں عورت کی حسیات پیدا ہوچکی ہیں‘ نادرا بغیر کسی میڈیکل چیک اپ کے اس کے جھوٹے بیان حلفی کی بنیاد پر اسے عورت کا شناختی کارڈ جاری کردے گا حالانکہ مادر پدر آزاد معاشرے برطانیہ میں بھی ایسا کرنے کے لیے میڈیکل کی شرط موجود ہے۔ ڈاکٹر عرفان مصطفٰی کا کہنا ہے کہ اللہ نے صرف مرد اور عورت کو پیدا کیا ہے‘ تیسری کسی صنف کا تصور نہیں ہے‘ تیسری جنس نہیں بلکہ ہارمونز کی کمی کی وجہ سے سامنے آتی ہے جو رفتہ رفتہ ماحول میں ڈھل کر مردانہ اور زنانہ عادت و اطوار اختیار کرلیتے ہیں۔ ڈاکٹر عرفان مصطفٰی کا اصرار ہے کہ  Male harmone.Testosterone.Female harmone.progesterone,and Estrogen. کی کمی یا زیادتی کے نتیجے میں جو پیدائش ہوتی ہے وہ بھی مرد یا عورت ہوتے ہیں اس لیے ان کی نظر میں انہیں ٹرانسجینڈر کا نام دینا درست نہیں ہے بلکہ ان کی تعلیم اور تربیت ضروری ہے۔ عامر ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ ٹرانسجینڈر ایکٹ کے تحت کسی کو اس کی خواہش کے مطابق جنسی سرٹیفکیٹ جاری کرنا درست نہیں ہے بلکہ ضروری ہے کہ میڈیکل ٹیسٹ کے بعد ان کی صنف کا فیصلہ کیا جائے اور اسی کے مطابق سرٹیفکیٹ جاری کیا جائے۔