مزید خبریں

رسائل و مسائل

عارضی مدت کا نکاح
سوال: ایک شخص تعلیم کی غرض سے دوسرے ملک جاتا ہے۔ اس کی تعلیم کی مدت چار سال ہے۔ وہ گناہ سے بچنے کے لیے چار سال کی مدت کے لیے نکاح کرلیتا ہے۔ فریقین کے درمیان اس کا معاہدہ ہو جاتا ہے۔ چار سال کے بعد اس شخص کی تعلیم مکمل ہو جاتی ہے اور وہ اپنے بیوی بچوں کو کچھ مال و جائداد اور رہائش دے کر طلاق دے دیتا ہے اور اپنے وطن روانہ ہو جاتا ہے۔ کیا یہ طریقہ درست ہے؟ اس سلسلے میں شریعت کیا کہتی ہے؟
جواب: اس تعلق سے دو صورتیں ہیں، ان میں فرق کرنا چاہیے۔ سوال میں جو بات کہی گئی ہے کہ ایک شخص چار سال کے لیے نکاح کر رہا ہے، یہ مدت لڑکے کو بھی معلوم ہے اور لڑکی کو بھی۔ اس کو اصطلاح میں ’نکاح متعہ‘ کہا جاتا ہے۔ اہل سنت و الجماعت کے نزدیک یہ حرام ہے۔ کتب سیرت و حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عہد نبویؐ میں ایک زمانے تک یہ حلال تھا، لیکن بعد میں اللہ کے رسولؐ کے زمانے ہی میں اس کو حرام قرار دے دیا گیا تھا۔ چوں کہ اس کی حرمت کی خبر تمام علاقوں اور تمام لوگوں تک نہیں پہنچی تھی، اس لیے بعد میں سیدنا عمرؓ نے اس کا اعلان عام کیا تھا۔
دوسری صورت یہ ہے کہ لڑکا عارضی مدت کے لیے نکاح کا ارادہ کرتا ہے، لیکن وہ اس کا اظہار نہیں کرتا۔ نکاح عام نکاحوں کی طرح ہوتا ہے، لڑکی کو اس بات کی خبر نہیں ہوتی کہ لڑکے کے دل میں کیا ہے؟ جہاں تک لڑکی کا تعلق ہے، یہ نکاح جائز ہے۔ اگر لڑکا چار سال کے بعد طلاق دے دیتا ہے اور اس کے جو لوازمات ہیں وہ ادا کر دیتا ہے، تواس نکاح کو قانونی حیثیت حاصل ہوگی۔ گویا ایسا نکاح، جس میں کسی ایک فریق کے دل میں چور ہو کہ میں ایک مدت کے بعد اس کو جاری نہیں رکھوں گا، لیکن دوسرے فریق کو اس کا علم نہ ہو، یہ نکاح جائز ہے۔ لڑکے نے عارضی مدت کے ارادے سے نکاح کیا ہے۔ اس ارادے کے سلسلے میں وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں جواب دہ ہوگا، لیکن نکاح کو قانونی حیثیت حاصل ہوگی۔
٭…٭…٭
زکوٰۃ کو قرض میں ایڈجسٹ کرنا
سوال: ایک خاتون زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے ہر ماہ کچھ رقم پس انداز کرتی رہی۔ اس دوران کسی ضرورت مند نے قرض مانگا تو اس رقم کو اسے قرض دے دیا۔ اب جب کہ اس کو زکوٰۃ ادا کرنی ہے اور قرض خواہ رقم واپس نہیں کر رہا ہے اور صورت حال یہ ہے کہ اس کے پاس زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے کوئی رقم نہیں ہے، اس صورت میں اگر قرض میں دی گئی رقم کو زکوٰۃ تصور کرلیا جائے اور قرض کو معاف کر دیا جائے تو کیا اس سے زکوٰۃ ادا ہو جائے گی؟
جواب: بعض فقہاء نے اس کی اجازت دی ہے کہ اگر ہم نے کسی کو قرض دیا ہے اور وہ اسے لوٹا نہیں رہا ہے، ہم پر زکوٰۃ فرض ہے تو ہم قرض کو معاف کردیں اور سمجھ لیں کہ ہم نے زکوٰۃ ادا کر دی۔ لیکن زیادہ تر فقہاء اس کو جائز نہیں قرار دیتے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طرح ہم نے حقیقت میں زکوٰۃ نہیں دی، بلکہ اپنی ڈوبی ہوئی رقم نکالی ہے۔ زکوٰۃ میں یہ ہوشیاری نہیں چلتی ہے۔ یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ زکوٰۃ اس ایڈجسٹمنٹ سے ادا نہیں ہوگی۔ کسی کو دیا ہوا قرض آپ حاصل کرنے کی کوشش کیجیے، واپس مل جائے تو ٹھیک ہے، نہ ملے تو معاف کر دیجیے، لیکن آپ کے ذمے جو زکوٰۃ ہے وہ آپ کو ادا کرنی ہوگی۔