مزید خبریں

افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ

اہل حق کی رہنمائی
رہنمائی سے مراد صرف علمِ حق عطا کرنا ہی نہیں ہے، بلکہ تحریکِ اسلامی کو کامیابی کے ساتھ چلانے کے لیے اور دشمنوں کی چالوں کو شکست دینے کے لیے بروقت صحیح تدبیریں سْجھانا بھی ہے۔ اور مدد سے مراد ہر قسم کی مدد ہے۔ حق اور باطل کی کشمکش میں جتنے بھی محاذ کھْلیں، ہر ایک پر اہلِ حق کی تائید میں کمک پہنچانا اللہ کا کام ہے۔ دلیل کی لڑائی ہو تو وہی اہل حق کو حجتِ بالغہ عطا کرتا ہے۔ اخلاق کی لڑائی ہو تو وہی ہر پہلو سے اہلِ حق کو اخلاقی برتری عطا فرماتا ہے۔ تنظیم کا مقابلہ ہو تو وہی باطل پرستوں کے دل پھاڑتا اور اہلِ حق کے دل جوڑتا ہے۔ انسانی طاقت کا مقابلہ ہو تو وہی ہر مرحلے پر مناسب اور موزوں اشخاص اور گروہوں کو لالا کر اہلِ حق کی جمعیت بڑھاتا ہے۔ مادّی وسائل کی ضرورت ہو تو وہی اہلِ حق کے تھوڑے مال واسباب میں وہ برکت دیتا ہے کہ اہلِ باطل کے وسائل کی فراوانی ان کے مقابلے میں محض دھوکے کی ٹٹی ثابت ہوتی ہے۔ غرض کوئی پہلو مدد اور راہنمائی کا ایسا نہیں ہے جس میں اہلِ حق کے لیے اللہ کافی نہ ہو اور انھیں کسی دوسرے سہارے کی حاجت ہو، بشرطیکہ وہ اللہ کی کفایت پر ایمان واعتماد رکھیں اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہ بیٹھے رہیں بلکہ سرگرمی کے ساتھ باطل کے مقابلے میں حق کی سربلندی کے لیے جانیں لڑائیں۔ ایمان دل میں ہو تو اس سے بڑھ کر ہمت دلانے والی بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ خداوندِ عالم آپ ہماری مدد اور رہنمائی کا ذمہ لے رہا ہے۔ اس کے بعد تو صرف ایک کم اعتقاد بزدل ہی میدان میں آگے بڑھنے سے ہچکچا سکتا ہے۔(تفہیم القرآن، جلد سوم، صفحہ 448)
٭…٭…٭
شورائیت اخلاقی فریضہ ہے
اسلام جس اخلاق کی انسان کو تعلیم دیتا ہے، مشورہ اس کا لازمی تقاضا ہے اور اس سے انحراف ایک بہت بڑی بد اخلاقی ہے جس کی اسلام کبھی اجازت نہیں دے سکتا۔ اسلامی طرزِ زندگی یہ چاہتا ہے کہ مشاورت کا اصول ہر چھوٹے بڑے اجتماعی معاملے میں برتا جائے۔ گھر کے معاملات ہوں تو ان میں میاں اور بیوی باہم مشورے سے کام کریں اور بچے جب جوان ہوں تو انھیں بھی شریکِ مشورہ کیا جائے۔ خاندان کے معاملات ہوں تو ان میں کنبے کے سب عاقل و بالغ افراد کی رائے لی جائے۔ ایک قبیلے یا برادری یا بستی کے معاملات ہوں اور سب لوگوں کا شریکِ مشورہ ہونا ممکن نہ ہو، تو ان کا فیصلہ کوئی ایسی پنچایت یا مجلس کرے جس میں کسی متفق علیہ طریقے کے مطابق تمام متعلق لوگوں کے معتمد علیہ نمائندے شریک ہوں۔ ایک پوری قوم کے معاملات ہوں تو ان کے چلانے کے لیے قوم کا سربراہ سب کی مرضی سے مقرر کیا جائے اور وہ قومی معاملات کو ایسے صاحب رائے لوگوں کے مشورے سے چلائے جن کو قوم قابلِ اعتماد سمجھتی ہو اور وہ اسی وقت تک سربراہ رہے جب تک قوم خود اسے اپنا سربراہ بنائے رکھنا چاہے۔ کوئی ایمان دار آدمی زبردستی قوم کا سربراہ بننے اور بنے رہنے کی خواہش یا کوشش نہیں کرسکتا، نہ یہ فریب کاری کرسکتا ہے کہ پہلے بزور قوم کے سر پر مسلط ہوجائے اور پھر جبر کے تحت لوگوں کی رضامندی طلب کرے، اور نہ اس طرح کی چالیں چل سکتا ہے کہ اس کو مشورہ دینے کے لیے لوگ اپنی آزاد مرضی سے اپنی پسند کے نمائندے نہیں بلکہ وہ نمائندے منتخب کریں جو اْس کی مرضی کے مطابق رائے دینے والے ہوں۔ ایسی ہر خواہش صرف اْس نفس میں پیدا ہوتی ہے جو نیت کی خرابی میں ملوث ہو۔ اور اس خواہش کے ساتھ ’امرھم شوری بینھم‘ کی ظاہری شکل بنانے اور اس کی حقیقت غائب کردینے کی کوششیں صرف وہی شخص کرسکتا ہے جسے خدا اور خلق دونوں کو دھوکا دینے میں کوئی باک نہ ہو، حالاں کہ نہ خدا دھوکہ کھاسکتا ہے اور نہ خلق خدا ہی اتنی اندھی ہوسکتی ہے کہ کوئی شخص دن کی روشنی میں علانیہ ڈاکا مار رہا ہو اور وہ سچے دل سے یہ سمجھتی رہے کہ وہ ڈاکا نہیں ما رہا ہے بلکہ لوگوں کی خدمت کررہا ہے۔ (تفہیم القرآن، جلد چہارم، ص 509)