مزید خبریں

ٹرانس جینڈر ایکٹ ترمیمی بل پر سینیٹر مشتاق احمد کی حمایت میں اضافہ

کراچی ( تجزیاتی رپورٹ: محمدانور) ٹرانس جینڈر ایکٹ 2018ء میں ترمیم کے لیے جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان کی جانب سے سینیٹ میں جمع کرائے گئے بل کی حمایت میں ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں بھی بازگشت بڑھنے لگی اور کراچی کے شہریوں کے ساتھ ملک بھر کے علما،دانشور اور اسلامی تعلیمات سے وابستہ صحافی بھی مخنث ( ٹرانس جینڈر ) ایکٹ کے خلاف اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار نظر آرہے ہیں۔ خیال رہے کہ یہ قانون 2018ء میں منظور ہوا تھا ۔ ممتاز و مقبول صحافی، دانشور اور سابق بیورو کریٹ اوریا مقبول جان کا کہنا ہے کہ ٹرانس جینڈر بل نہیں بلکہ یہ ایک قانون ہے جو اس ملک میں 22 مئی 2018ء سے نافذ ہے ، جسے پاکستان کی اسمبلی نے متفقہ طور پر پاس کیا تھا اور جس کے خلاف 3 ارکان نے تقریرکی لیکن کسی نے بھی اس کے خلاف ووٹ نہیں دیا۔ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان کا کہنا ہے کہ یہ بل 2018ء میں سینیٹ سے منظور ہوا تھا۔یہ بل نون لیگ، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور مسلم لیگ ق کی 4 خواتین سینیٹرز نے تیار کیا تھا۔ اس بل پر ہمیں اس وقت بھی اعتراضات تھے اور اب بھی ہیں۔چند روز قبل سینیٹ کے اجلاس سے خطاب کرتے سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ اس قانون کی منظوری کے بعد 28 ہزار 723 افراد نے نادرا کو اپنی جینڈر تبدیل کرنے کی درخواست دی، جن میں سے 16530 مردجینڈر سے عورت جینڈر کا سرٹیفکیٹ جبکہ 12154 عورت جینڈر سے مرد جینڈر کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنا چاہتے تھے۔9 مردوں نے عورت مخنث اور 21 عورتوں نے مرد مخنث بننے کی درخواست جمع کرائی تھی۔اس قانون کے تحت ہر ایک کو یہ حق بھی دیا گیا ہے کہ وہ اپنی مرضی کی جنس کا سرٹیفکیٹ حاصل کرسکتا ہے جبکہ سینیٹر مشتاق احمد خان کا کہنا ہے کہ کسی کی خواہش پر اسے اس کی مرضی کے جنس کا سرٹیفکیٹ جاری کرنا اسلامی اصولوں کے خلاف ہے اس لیے اس قانون میں ترمیم کی جائے۔ عام خیال یہ ہے کہ اپنی مرضی کی جنس کا سرٹیفکیٹ حاصل کرکے قوم لوط کی افزائش کی جاسکتی ہے جن کی پاکستان میں گنجائش نہیں ہے۔لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر نادرا ایسے سرٹیفکیٹ جاری کررہا ہے تو اسے سختی سے روکا جائے۔