مزید خبریں

بی جے پی نے مذہب کارڈ استعمال کیا ،ہر گائوں کو بجلی دی،عوام سے رابطے میں رہتی ہے

کراچی (رپورٹ : قاضی جاوید)بی جے پی نے مذہب کارڈاستعمال کیا‘ہرگائوں کوبجلی فراہم کی‘عوام سے رابطے میں رہتی ہے‘بھارتی عوام مودی کو مخلص رہنما اورحکومت کرپٹ نہیں سمجھتے‘بی جے پی کی مقبولیت کا راز تنظیمی طاقت میں پوشیدہ ہے‘ دلتوں، پسماندہ برادریوں میں بھی اپنا اثرو رسوخ بڑھایا ہے‘آئندہ عام انتخابات کے لیے کانگریس سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں کوبی جے پی مخالف اتحادبنانا ہوگا۔ان خیالات کا اظہار جنتادل یونائیٹڈ کے سابق قومی صدر شرد یادو، بھارتی فلمی اداکار، سیاست دان شتروگھن سنہا، معروف صحافی عبدالرشید اور بی جے پی کے سابق رہنما اور سابق مرکزی وزیر یشونت سنہا نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’بھارت میں بی جے پی کی مقبولیت کے اسباب کیا ہیں؟‘‘ شرد یادو کے مطابق اس میں کوئی شک نہیں کہ بی جے پی نے ملک میں اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں‘ 2014ء سے مودی حکومت کے خلاف کوئی اپوزیشن لیڈر سامنے نہیں آسکا لیکن امید ہے کہ آئندہ عام انتخابات سے قبل اپوزیشن جماعتوں میں اتحاد ہو جائے گا‘ میں اس سلسلے میں کوششیں کر رہا ہوں‘ میں نے کانگریس کے صدر راہول گاندھی سے بھی بات کی ہے‘ سانجھی وراثت کے نام سے ہم نے تمام اپوزیشن جماعتو ں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی کوشش کی ہے اور پچھلے10 ماہ میں ہم نے اس سلسلے میں بہت کام کیا ہے‘ یہ ٹھیک نہیں بی جے پی حکومت ختم نہیں ہو سکتی ہے۔شرد یادو کا کہنا تھا کہ اپوزیشن اتحاد مشکل تو ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں ہے‘ ماضی میں بھی اس طرح کی کوششیں کامیابی سے ہمکنار ہو چکی ہیں اور گورکھ پور، پھول پور اور گرداس پور کے حالیہ ضمنی پارلیمانی انتخابات نے بھی ثابت کر دیا ہے کہ اگر اپوزیشن متحد ہو جائے، تو بی جے پی کو شکست دینا مشکل نہیں ہے۔ خیال رہے کہ گورکھ پور اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی ادتیہ ناتھ کا روایتی پارلیمانی حلقہ تھا، جہاں بی جے پی گزشتہ25 برس سے کامیاب ہوتی چلی آرہی تھی۔ شرد یادو نے کہا کہ عوام میں مودی حکومت کے کام کاج کے حوالے سے بھی بہت غصہ پایا جاتا ہے‘ گزشتہ ماہ دلتوں نے بھارت بھر میں سڑکوں پر نکل کر احتجاجی مظاہرے کیے‘ کسان بھی ملک کے مختلف حصوں میں حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک چلا رہے ہیں اور مزدور بھی حکومت کے کام اور پالیسیوں سے خوش نہیں ہیں‘ ان سب کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا بیجا نہ ہو گا کہ اگلے سال ہونے والے عام انتخابات میں بی جے پی کا مرکز میں اقتدار سے باہر ہو جانا طے ہے۔شتروگھن سنہا نے کہا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کے قیام کا معاملہ عدالت عظمیٰ تک پہنچ گیا ہے لیکن یہ سچ اپنی جگہ ہے کہ ہندو قوم پرست بی جے پی بھارت کی ملک گیر سیاسی طاقت ہے‘ بھارت میں سیاسی اتار چڑھاؤ پر نظر رکھنے والے ماہرین کے لیے یہ ایک حقیقت ہے کہ ملک کے 75 فیصد رقبے اور 68 فیصد آبادی پر آج بھارتیہ جنتا پارٹی یا اس کی قیادت والے قومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے) کی حکومت ہے۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے اس پارٹی نے مذہب کو کامیابی کا زینہ بنایا لیکن اس پارٹی نے ایک کام بہت اہم کیا ہے ‘ وہ یہ اس نے بھارت کے ہر گائوں میں بجلی پہنچا دی ہے‘ 2014ء میں جب وزیر اعظم نریندر مودی نے اقتدار سنبھالا تھا تو صرف7 صوبوں میں این ڈی اے کی حکومت تھی اور بی جے پی کے صرف 4 وزرائے اعلیٰ تھے‘ 2014ء کے بعد سے اب تک 22 صوبوں میں اسمبلی انتخابات ہو چکے ہیں، جن میں این ڈی اے کو 15 صوبوں میں کامیابی حاصل ہوئی اور بی جے پی کو مزید11 ریاستوں میں وزرائے اعلیٰ کے عہدے مل گئے‘ پچھلے 4 سال کی مدت میں بی جے پی کی مقبولیت میں کافی اضافہ ہوا ہے‘ بی جے پی خود کو اپنے کارکنوں کی تعداد کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی سیاسی جماعت قرار دیتی ہے‘ گو کہ عام انتخابات کے دوران نریندر مودی نے جو وعدے کیے تھے‘ ان میں سے شاید ہی کوئی بڑا وعدہ پورا کیا ہو اور ’نوٹ بندی‘، نیا ٹیکس نظام ،جی ایس ٹی، مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافے کی وجہ سے عوام کی پریشانیاں بڑھی ہیں تاہم بی جے پی عوام کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہی ہے کہ اس کی حکومت بدعنوانیوں سے پاک ہے جب کہ مرکز میں سابق کانگریس حکومت بدعنوانیوں میں ڈوبی ہوئی تھی۔ عبدالرشید نے کہا کہ بی جے پی عوام کو یہ باور کرانے میں بھی بڑی حد تک کامیاب رہی ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی ملکی ترقی کے لیے ہمہ تن کوشاں ہے‘ یہی وجہ ہے کہ 2014ء کے بعد سے جتنے بھی اسمبلی انتخابات ہوئے ہیں، وہ بی جے پی نے اپنے مقامی رہنماؤں کے بجائے مودی کے نام پر ہی لڑے ہیں‘ سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ بی جے پی کی کامیابی اور بڑھتی ہوئی مقبولیت کا راز اس کی زبردست تنظیمی طاقت میں پنہاں ہے۔ یشونت سنہا نے کہا کہ بی جے پی اب ایک کارپوریٹ کمپنی کی طرح بن کر رہ گئی ہے لیکن یہ حقیقت ہے “بھارتیہ جتنا پارٹی دیگر جماعتوں کے برعکس خود کو صرف الیکشن کے دنوں میں ہی نہیں بلکہ ہر وقت سرگرم رکھتی ہے‘اس کے کارکن سال بھر عوام سے رابطہ رکھتے ہیں‘ اس کام میں اس جماعت کی حامی ہندو قوم پرست تنظیم آر ایس ایس بھی اس کی بھرپور مد د کرتی ہے، جس کے مقامی یونٹوں کا جال ملک کے گاؤں گاؤں میں پھیلا ہوا ہے‘ بی جے پی اگرچہ دلتوں، پسماندہ برادریوں اور قبائلیوں کی عظیم شخصیات کے نظریات کی ہمیشہ مخالف رہی ہے تاہم اس نے ان رہنماؤں کو خود سے جوڑنے کا ڈھنڈورا پیٹ کر بھارت میں ہندوؤں کی آبادی کے تقریباً 85 فیصد حصے کو اپنے دام میں لے لیا ہے‘ اس وقت بھارت میں بی جے پی مخالف جماعتوں میں اتحاد کی سخت ضرورت ہے۔ بی جے پی کی مسلسل فتح کی رفتار کو روکنے میں صرف اسی وقت کامیابی مل سکتی ہے جب کانگریس سمیت تمام اپوزیشن جماعتیں اپنی اپنی انا کو ترک کر کے متحد ہو جائیں اس سلسلے میں اب تھوڑی بہت پہل ہوئی بھی ہے۔