مزید خبریں

اسلامی عقائد اور جزا و سزا کے بغیر فحاشی وعریانی کی روک تھام ممکن نہیں

کراچی (رپورٹ: محمد علی فاروق)اسلامی عقائد اور جزا و سزا کے بغیر فحاشی و عریانی کی روک تھام ممکن نہیں‘ بے حیائی کی روک تھام کے لیے قوانین موجود ہیں‘ ملوث عناصر کو گرفتار کرکے سزا دی جائے ‘ عوام کی ذہن سازی کے لیے میڈیا بہت بڑا ذریعہ ہے‘ اسلامی قوانین کی بدولت افغانستان میں خواتین کے خلاف جرائم میں ناقابل یقین حد تک کمی آئی ہے۔ ان خیا لات کا اظہار جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر راشد نسیم، رئیسہ کلیہ معارف اسلامی پروفیسر ڈاکٹر شہناز غازی اور صدر پاکستان فلم اینڈ ٹی وی جرنلسٹس ایسوسی ایشن عبدالوسیع قریشی نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’معاشرے میں عریانی و فحاشی کے طوفان کو کس طرح روکا جاسکتا ہے؟‘‘ راشد نسیم نے کہا کہ پاکستان کے موجودہ نظام میں بہت سی خرابیاں ہیں‘ تمام جرائم کا گراف بڑھ رہا ہے‘ اس پورے نظام میں کسی خرابی یا جرائم کو روکنے کی صلاحیت نہیں ہے‘ کیا اس نظام نے فحاشی وعریانی سمیت کر پشن ، مہنگائی ، لوٹ مار ، قتل وغارت گری اور خواتین کے ساتھ بدسلوکی کو روک لیا ہے؟ اس نظام میں ہر معاملے کو پرکھنے کے لیے قرآن وسنت کی چھنی ہونی چاہیے‘ اس ہی چھلنی سے چھن کر اراکین قومی و صوبائی اسمبلیوں اور صدر، وزیراعظم کا انتخاب ہونا چاہیے جبکہ اس ہی چھلنی سے گزر کر قانون سازی عمل میں لانی چاہیے ‘ اگر کوئی معاشرہ کسی بھی حصے میں طے کر لے کہ اس کی مرضی کے خلاف کوئی کام نہیں ہوگا تو کیا وہ کام معاشرے میں آزادانہ ہوسکتا ہے؟ کیا آپ نے یہ طے کیا ہے کہ کوئی غیر اخلاقی مواد سوشل میڈیا پر نہیں چل سکتا؟ چین اتنا بڑا ملک ہے‘ اگر وہ یہ طے کر لے کہ فحش ویب سائٹ بند ہونی چاہیے تو وہ بند کر دی جاتی ہیں‘ سعودی عرب میں بھی اس کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا اور یہی روش دنیا کے ہر ملک میں رائج ہے۔ راشد نسیم نے کہا کہ اصل بات یہ ہے کہ پورا نظام اور نظام کو چلانے والوں کی سوچ اور ذہن یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ معاشرے کو کس ڈگر پر لے کر جانا ہے‘ دراصل فحاشی عریانی اور نفس پرستی ایک طرح کی کھجلی کا مرض ہے‘ یہ انسان کو لگ جائے تو اس سے اس کی طلب مزید بڑھ جاتی ہے ‘ اسی طرح فحاشی وعریانی کا مرض ختم نہیں ہوتا جب تک ذہن سازی نہ ہو‘ مغربی دنیا میں فحاشی وعریانی کی کوئی حد نہیں ہے‘ وہاں کے عوام زنا جسے مرض میں مبتلا ہوئے تو آگئے بڑھ کر ہم جنس پرستی میں پڑ گئے اور آ گے بڑھے تو اب جانوروں سے جنسی خواہش پوری کر رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ انسان نفس کو اپنا خدا بنا لے تو یہ طوفان کہیں رکنے کا نام نہیں لیتا‘اس ہی لیے علامہ اقبال نے کہا تھا کہ ڈھونڈ رہا ہے فرنگ عیش جہاں کا دوام، وائے تمنائے خام وائے تمنائے خام ۔ انسان کی خواہش کبھی پوری نہیں ہوتی‘ معاشرے میں میڈیا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے‘ وہ معاشرے کو جس ڈگر پر لے جانا چاہے‘ باآسانی معاشرہ اسی ڈگر پر چلا جاتا ہے‘ اگر درست نظام کے ہاتھوں یہ تمام چیزیں ہوں تو معاشرے کو مثبت سمت پر ڈالا جاسکتا ہے ۔ راشد نسیم نے کہا کہ اس وقت دنیا میں کمیونسٹ، سوشلسٹ یا بادشاہتوں سمیت کوئی ملک ایسا نہیں ہے جہاں خواتین کی عصمت دری کے واقعات کی روک تھام ممکن ہو‘ دنیا کی تمام کوششیں بے سود ثابت ہوئی ہیں‘ فحاشی وعریانی انسانیت کی دشمن ہے‘ دراصل اسلامی عقائد توحید و رسالت، آخرت، جزا و سزا کے بغیر فحاشی وعریانی اور جرائم کی روک تھام ممکن نہیں ہے‘ اس کے لیے قانون سازی سے پہلے ذہن سازی کی ضرورت ہے‘ اسی لیے فحاشی وعریانی کی روک تھام کے لیے ایک ٹھوس مضبوط اسلامی ذہن سازی ہونی چاہیے‘ اس مرض کی لپیٹ میں پوری دنیا مبتلا ہے یہ انسانی نفسیاتی مسئلہ بن چکا ہے‘ اسلام ہی ایسی ذہن سازی کرتا ہے جس کے نتیجے میں دنیا نے دیکھا کہ افغانستان میں خواتین کے خلاف جرائم میں ناقابل یقین کمی آئی ہے‘ اس ہی لیے یہ کہنا درست ہوگا کہ صر ف اسلامی نظام ہی فحاشی و عریانی سمیت دیگر جرائم کی روک تھام کر سکتا ہے۔ ڈاکٹر شہناز غازی نے کہا کہ عریانی و فحاشی کی تاریخ کوئی نئی نہیں ہے بلکہ قدیم ہے ‘پہلے یہ چند مخصوص افراد تک محدود تھی‘ اب یہ ہر فرد کو بلا تخصیص عمر اور جنس اس کا سامنا ہے‘ معاشرے میں عریانی و فحاشی کی روک تھام کے لیے قرآن میں واضح راستہ فراہم کیا گیا ہے‘ نماز برائی و بے حیائی سے روکتی ہے‘ جب اللہ کے حضور حاضری کو چھوڑ دیا جائے یا نماز کو اس کی روح کے مطابق ادا نہ کیا جائے اور نہ ہی اس بات کو سمجھا جائے کہ اللہ رب العزت کے سامنے حاضری کے وقت کیا کہا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے نماز میں کس چیز کا وعدہ کیا جاتا ہے‘ ہم اللہ تعالیٰ سے کس قسم کی مدد مانگ رہے ہیں یا پھر ہم اپنے کن گناہوں پر شرمندہ ہیں اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا وعدہ کرتے ہیں‘ اگر ان تمام باتوں کا علم ہی نہ ہو تو پھر ہم کس طرح فحاشی و بے حیائی کے کاموں سے بچ سکتے ہیں لہٰذا بے حیائی اور فحاشی کو روکنے کے لیے بھی اتنی ہی شدت اور قوت درکار ہے جتنی اس کو پھیلانے میں صرف کی جا رہی ہے‘ وہ افراد جو اپنی عمر کی 6،7 دہائیاں گزار چکے ہیں اس بات سے اچھی طرح واقف ہیںکہ یہ زہر کس طرح غیر محسوس انداز میں اس نسل کی رگوں میں اتارا گیا ہے ۔ شہناز غازی نے کہا کہ برائی کو اتنا عام کر دیا گیا ہے اور برائی کی تشریح ہی بدل دی گئی ہے‘ برائی کو برائی تصور نہ کیا جائے تو اس کی اصلاح کرنا مشکل ہوجاتا ہے مگر باطل مٹ جانے کے لیے ہے‘ اس لیے انفرادی اور اجتماعی سطح پر کوششیں کرنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے حالانکہ اس معاملے میں ہمارے علما کرام کا کردار بھی بہت اہمیت کا حامل ہے اور وہ اپنے طور پر اس کی اصلاح میں لگے ہوئے بھی ہیں مگر جب تک ریاست اس اہم کام میںشامل نہیں ہوگی‘ انفرادی اور اجتماعی کوششیں بہت زیادہ سود مند ثابت نہیں ہوسکتیں‘ دوسری جانب سوشل میڈیا پر بھی کسی قسم کا کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے اسی وجہ سے معاشرہ مزید بے راہ روی کا شکار ہے ‘اس کی بیخ کنی کے لیے منظم انداز میں کام کرنے کی ضرورت ہے تب ہی ہم اپنی آنے والی نسلوں کو اس برائی سے بچا سکتے ہیں‘ جب تک معاشرے پر سختی نہ کی جائے ‘ ہم مِن حَیثُ القَوم اس وقت تک سیدھے راستے پر نہیں آتے‘ اس لیے ریا ستی سطح پر نماز کے نظام کو اس کی روح کے ساتھ عام اور لازمی کردیا جائے‘ گھروں اور محلوں میں سختی سے رائج کر دیا جائے‘ عریانی و فحاشی کے کاموں کی معاشرے میں ریاستی سطح پر بیخ کنی کی جائے تو اس کی روک تھام کسی حد تک ممکن ہے۔ عبدالوسیع قریشی نے کہا کہ ماضی میں عریانی اور فحاشی پھیلانے کا سارا الزام فلم انڈسٹری پر عاید کیا جاتا تھا اور یہ الزام غلط بھی نہیں تھا چند فلم سازوں نے محض دولت کمانے کی غرض سے بے ہودہ فلمیں بنائیں لیکن اب صورتحال مختلف ہے‘ جدید ٹیکنالوجی اور مختلف قسم کی ایپس جن میں ٹک ٹاک سرفہرست ہے‘ معاشرے میں عریانی اور فحاشی کو عام کرنے کا سبب بن رہی ہیں‘ اس سیلاب کو روکنے کی پہلی ذمے داری تو خود ہم پر عاید ہوتی ہے ‘ بحیثیت صحافی ہمیں معاشرے کے ان عناصر کو بے نقاب کر نا ہو گا جو عریانی اور فحاشی پھیلانے کا سبب بن رہے ہیں‘ ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمے داری ہے کہ جب ملک میں قانون موجود ہے اور سائبر کرائم ایکٹ بھی نافذ ہو چکا ہے تو پھر ایسے عناصر کے خلاف سخت کارروائی کیوں عمل میں نہیں لائی جاتی جو اس گھنائونے عمل میں ملوث ہیں‘ عریانی اور فحاشی پھیلانے والے افراد کو حراست میں لیے جانے کی خبریںتو آتی ہیں لیکن پھر یہ پتا نہیں چلتا کہ ان کا انجام کیا ہوا‘ بہت سے تو باعزت بری ہو جاتے ہیں‘ بلاشبہ یہ ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نااہلی کے سوا کچھ نہیں ہے‘ اگر ہمیں واقعی اپنے ملک سے عریانی اور فحاشی کے سیلاب کو ختم کرنا ہے تو عوام اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مل کر کوششیں کرنا ہوں گی اورایک ایسا پلیٹ فارم بنانا ہو گا جس کے تحت سخت اور غیر جانبدارانہ ایکشن لیا جائے اور قانون کی بلادستی کو قائم کرتے ہوئے اس گھنائونے عمل میں ملوث افراد کو قرار واقعی سزادی جائے توہم ا یسی صورت حال سے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں۔