مزید خبریں

جاگیرداروں ،سرمایہ داروں اور افسر شاہی نے مزدور تحریک کا گلا گھونٹ دیا

کراچی (رپورٹ: قاضی سراج) جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور افسر شاہی نے مزدورتحریک کا گلا گھونٹ دیا‘ غیر جمہوری قوتوں نے اقتدار میں آکر ٹریڈ یونین کو کمزور کیا‘ نظریاتی لیڈر شپ کا فقدان ہے‘ سرکاری اور نجی اداروں میں مزدور دشمن قوانین نافذ کیے گئے‘ یونینز مختلف سیاسی اور مذہبی دھڑوں میں تقسیم ہیں‘ پاکستان میں مزدوروں کی کوئی کونسل نہیں۔ان خیالات کا اظہار نیشنل لیبر فیڈریشن پاکستان کے صدر شمس الرحمن سواتی، متحدہ لیبر فیڈریشن KPK کے صدر محمد اقبال، سیمنس پاکستان کے سابق مزدور رہنما اور ہیوسن ٹیکساس امریکا میں مقیم محنت کش نجیب احمد اور نیشنل لیبر فیڈریشن پاکستان کے سوشل میڈیا انچارج حسن علی نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’مزدور تحریک کی تباہی کا ذمہ دار کون ہے؟‘‘ شمس الرحمن سواتی نے کہا کہ ملک کو اول روز سے ہی جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور افسر شاہی کے ایک ٹرائیکا نے جڑ جکڑ لیا ہے‘ اس ٹرائیکا نے ایک طے شدہ حکمت عملی کے تحت مزدور یونین اور اسٹوڈنٹس یونین کا گلا گھونٹ دیا کیونکہ یہاں سے غریب اور متوسط طبقے کی لیڈر شپ قومی سطح پر اُبھر رہی تھی جس سے ظلم کے نظام کو خطرہ تھا‘ مالکان نے اول روز سے ٹریڈ یونین کو تسلیم ہی نہیں کیا‘ حکمرانوں نے فیکٹری مالکان کے ہاتھوں استعمال ہو کر ٹریڈ یونین کو تحفظ اور فروغ دینے کے بجائے اس کی حوصلہ شکنی کی اور اس کا گلہ دبایا‘ مزدور لیڈر شپ کی اکثریت نے تحریک کو اپنے مفادات کے بھینٹ چڑھا دیا‘ قانون، اصول اور ذمہ دارانہ طرزعمل اختیار کرنے کے بجائے دھونس، دھاندلی یا مالکان کے چند ٹکوں کے عوض پاکٹ یونینز کو رواج دے کر مزدور تحریک کا خون کیا اور عالمی اداروں نے ٹریڈ یونینز کو فروغ دینے کے بجائے اپنا کردار مغربی تہذیب کو فروغ دینے کے لیے ادا کیا۔ محمد اقبال نے کہا کہ ٹریڈ یونین کے عروج والے دور میں مزدور تحریک کو سیاسی و سماجی دانشوروں کی آشیرباد حاصل تھی جس کے وجہ سے حکومتی اداروں کی بھی مجبوری تھی کہ وہ مسائل کے حل پر توجہ مرکوز کیا کرتے تھے‘ اس وجہ سے مزدوروں کو بھی حوصلہ ملتا تھا اور وہ اپنے آپ کو اس تحریک سے جوڑے رکھتے تھے‘ رفتہ رفتہ غیر جمہوری قوتوں کا حکومت پر قابض ہونے، ان کے غیر جمہوری اقدامات اور جمہوری قوتوں کو کچلنے کی پالیسیوں نے مزدور تحریک کو کمزور کیا، وہاں اس وقت نظریاتی لیڈر شپ کے فقدان نے بھی مزدور تحریک کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے‘ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ مزدوروں کے نام پر کام کرنے والی تمام تنظیموں کے قائدین مسائل کے بھنور میں پھنسے مزدوروں کو اس بھنور سے نکالنے اور مزدور تحریک کو بڑھاوا دینے اور طاقتور بنانے کی خاطر ایک تنظیم بنانے کے طرف بڑھیں اور مزدور تحریک کو اس قابل بنائیں کہ ملکی پالیسیوں پر اثر انداز ہو سکیں۔ نجیب احمد نے کہا کہ مزدور یونینز مختلف سیاسی ومذہبی دھڑوں میں تقسیم ہیں‘ مزدور کے حقوق کے حصول کو ٹھیکے داری نظام نے نقصان پہنچایا ہے‘ مزدوروں کی کوئی مشترکہ فیڈریشن نہیں ہے جس کا فائدہ مالکان اٹھاتے ہیں‘ مزدور پالیسی پر عمل نہیں ہوتا‘ پارلیمنٹ مزدوروں کے مفادات کو پالیسی میں شامل نہیں کرتی‘ حکومت مزدوروں کو انصاف کی فراہمی میں بھی مدد نہیں کرتی ہے‘ پاکستان میں مزدوروں کی کوئی کونسل نہیں ہے‘ بیشتر سیاسی پارٹیاں مزدوروں کو حقوق دلوانے کے لیے عملی اقدامات نہیں کرتیں۔ حسن علی نے کہا کہ سرکاری اور نجی اداروں میں مزدور دشمن قوانین لاکر نہ صرف مزدور تحریک کو کمزور کیا جا رہا ہے بلکہ مزدوروں کے حقوق پر ڈاکا ڈالا جا رہا ہے‘ آج کے دور میں مزدور پریشان حال ہے‘ بیورو کریسی مزدوروں کے ساتھ ظلم و زیادتی کر رہی ہے‘ مزدور قوانین کی موجودگی میں مزدوروں کو ملازمت کا تحفظ حاصل نہیں ہے‘ حکومت اور ایمپلائر کے بل بوتے پر مزدوروں کو حقوق سے محروم کیا جاتا ہے‘ مزدور تحریک کے رہنما پریشان ہیں‘ انصاف نہیں مل رہا ہے‘ حکومتی فلاحی اداروں میں رشوت کا بازار گرم ہے‘ اسی وجہ سے مزدور تحریک اپنے مشن میں کامیابی حاصل نہیں کر پا رہی ہے۔