مزید خبریں

پْرتعیش اشیا کی درآمد پر پابندی عائد نہ ہو نے سے ڈالر250سے بڑھ سکتا ہے

مسلسل 13 روز سے گراوٹ کا شکار پاکستانی روپیہ آج (جمعہ کو) انٹربینک مارکیٹ میں مزید 96 پیسے کم ہوگیا۔اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایف اے پی) کے مطابق ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپیہ 0.41 فیصد کمی کے بعد 236 روپے 84 پیسے کا ہو گیا جبکہ گزشتہ روز یہ کاروبار کے اختتام پر 235.88 روپے پر بند ہوا تھا اور آج اس کی قدر مزید 0.47 فیصد کم ہوگئی۔ایف اے پی کے چیئرمین ملک بوستان نے کہا کہ بڑھتے ہوئے درآمدی بل کی وجہ سے روپے کی قدر میں کمی کا سلسلہ جاری ہے۔انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ غیر ضروری اور پْرتعیش اشیا کی درآمد پر پابندی عائد کی جائے۔انہوں نے خبردار کیا کہ اگر وزارت خزانہ مداخلت نہیں کرے گی تو ڈالر کے مقابلے میں روپیہ گر کر 250 تک ہو سکتا ہے، حکومت کو دوست ممالک سے فوری مدد کی اپیل کرنی چاہیے تاکہ پاکستانی کرنسی پر دباؤ کم ہوسکے۔ان کا کہنا تھا کہ اوپن مارکیٹ میں روزانہ (ڈالر کی) مانگ بڑھ رہی ہے، عمرہ سیزن شروع ہوگیا ہے جس کی وجہ سے غیر ملکی کرنسیوں کی طلب میں اضافہ ہوا۔ایک روز قبل پاکستان ادارہ شماریات (پی بی ایس) نے اعداد و شمار جاری کیے تھے جس کے مطابق پاکستان کی تیل اور کھانے پینے کی اشیا کی درآمدات رواں مالی سال کے ابتدائی 2 ماہ میں 11.4 فیصد بڑھ کر 5 ارب 8 کروڑ ڈالر تک پہنچ گئی جو ایک سال قبل 4 ارب 56 کروڑ ڈالر تھی۔
چنانچہ جولائی تا اگست تیل کا درآمدی بل 7 فیصد سے زیادہ بڑھ کر 3 ارب 30 کروڑ ڈالر ہوگیا جو گزشتہ سال کے اسی مہینوں میں 3 ارب 8 کروڑ ڈالر تھا۔اسی طرح خوراک کا درآمدی بل دو ماہ میں 21 فیصد بڑھ کر ایک ارب 78 کروڑ ڈالر تک پہنچ گیا جو ایک سال پہلے ایک ارب 47 کروڑ ڈالر تھا تاکہ مقامی پیداوار کے فرق کو پر کیا جاسکے۔روپے کی قدر 2 ستمبر سے کم ہو رہی ہے، مالیاتی اعداد و شمار اور تجزیاتی پورٹل میٹس گلوبل کے مطابق گزشتہ 52 ہفتوں کے دوران پاکستانی روپے کی قدر میں 28.7 فیصد کمی واقع ہوئی۔اس سے قبل روپیہ 28 جولائی کو 239.94 کی ریکارڈ کم ترین سطح پر پہنچ گیا تھا۔
قائم مقام صدرایف پی سی سی آئی سلیمان چاولہ نے ا سٹیٹ بینک کے ان دعووں کو واضح طور پر مسترد کر دیا ہے کہ خام مال کی درآمد پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ اسٹیٹ بینک کی جانب سے درآمدی ادائیگیوں کو تیزی سے کلیئر نہ کرنے کے نتیجے میں صنعتی پیداوار میں خلل پڑ رہا ہے، ناقابل برداشت ڈیمریجز اور کنٹینر چارجز دینے پڑ رہے ہیں، برآمدی آرڈرز کی تکمیل میں ہونے والی تاخیر نقصانات کا باعث بن رہی ہے، ڈومیسٹک مارکیٹ میں افراط زر کا دباؤ بڑھ رہا ہے اور سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی ہو رہی ہے۔قائم مقام صدرایف پی سی سی آئی نے وضاحت کی کہ زرمبادلہ کی عدم دستیابی، روپے کی مسلسل گرتی ہوئی قدر، قیاس آرائی پر مبنی ڈالر ٹر یڈنگ اور اسٹیٹ بینک کی جانب سے تاخیر کی وجہ سے مینوفیکچررز اور کمرشل امپورٹرز خطرے میں ہیں اور برآمدات میں کمی آنا شروع ہوگئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کم ہوتی ہوئی برآمدات، بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے (CAD) کی وجہ سے ملک کو نقصان اٹھانا پڑے گا۔ سلیمان چاولہ نے کہا کہ اسٹیٹ بینک مختلف پالیسی ٹولز کے ذریعے کمرشل بینکوں کو مؤثر طریقے سے ریگولیٹ کرنے کے اپنے آئینی فرائض کو ادا کرنے میں ناکام رہا ہے اور کمرشل بینک ڈالر کی قیاس آرائی پر مبنی ٹر یڈنگ کے ذریعے ناجائز منافع خوری کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے بھی ایف پی سی سی آئی نے بار بار اسٹیٹ بینک کو یاد دلایا ہے کہ وہ کمرشل بینکوں کو کنٹرول کرنے کے لیے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرے؛ لیکن یہ یقین دہانیاں ہمیشہ بے سود رہی ہیں۔سلیما ن چاؤلہ نے اس بات پر زور دیا کہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر 8 سے 10 روپے کے پریمیم پر ٹریڈ کر رہا ہے اور یہ اس حقیقت کا واضح ثبوت ہے کہ درآمد کنندگان بینکنگ چینلز سے ڈالرز کا حصول نہیں کر پا رہے ہیں؛جو انہیں اپنے درآمدی معاہدوں اور متعلقہ تجارتی لین دین کو پورا کرنے کے لیے درکار ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ حالات صورتحال کو مزید خراب کریں گے اور غیر رسمی اوپن مارکیٹ کو فروغ ملے گا۔ سلیمان چاولہ نے نشاندہی کی کہ اسٹیٹ بینک کے دعویٰ کے مطا بق کمرشل بینکوں کو جاری کیے گئے سرکلر کے باوجود کسٹم ٹیرف کے باب 84 اور 85 کے تحت کمرشل بینکوں کے ساتھ ایل سی کھولنے میں ابھی بھی مشکلات حائل ہیں اور یہ اسٹیٹ بینک کے ریگولیٹری کردار کو نافذ کرنے کی صلاحیت میں ناکامی کو ظاہر کرتا ہے۔ تاہم،انہوں نے زور دے کر کہا، اسٹیٹ بینک کے پاس اپنے فیصلوں اور سرکلرز کو نافذ کرنے کے لیے تمام ذرائع اور پالیسی ٹولز موجود ہیں۔ایف پی سی سی آئی کے نائب صدر انجینئر ایم اے جبارنے روشنی ڈالی کہ اپنی ناکامی کی ذمہ داری لینے کے بجا ئے اسٹیٹ بینک نے صنعتکاروں اور ان کے نمائندوں پر الزام تراشی کا سہارا لیا ہے؛ جوکہ پہلے ہی بینکنگ چینل میں ڈالر کی کمی کے علاوہ مختلف دیگر عوامل کی وجہ سے بے مثال اور تا ریخی دباؤ میں ہیں۔ انجینئر جبار نے مزید کہا کہ ایف پی سی سی آئی اسٹیٹ بینک کے طرز عمل کو صنعتی ترقی کے لیے نقصان دہ، ذمہ داری کے فقدان، روزگار کے مواقع کم ہونے، مہنگائی کو مزید بڑھانے اور اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے اقدامات نہ کرنے کی وجہ سے مسائل میں اضافے کا باعث ہونے کے طور پر دیکھتی ہے۔چند روز قبل پاکستان ادارہ شماریات (پی بی ایس) نے اعداد و شمار جاری کیے تھے جس کے مطابق پاکستان کی تیل اور کھانے پینے کی اشیا کی درآمدات رواں مالی سال کے ابتدائی 2 ماہ میں 11.4 فیصد بڑھ کر 5 ارب 8 کروڑ ڈالر تک پہنچ گئی جو ایک سال قبل 4 ارب 56 کروڑ ڈالر تھی۔چنانچہ جولائی تا اگست تیل کا درآمدی بل 7 فیصد سے زیادہ بڑھ کر 3 ارب 30 کروڑ ڈالر ہوگیا جو گزشتہ سال کے اسی مہینوں میں 3 ارب 8 کروڑ ڈالر تھا۔اسی طرح خوراک کا درآمدی بل دو ماہ میں 21 فیصد بڑھ کر ایک ارب 78 کروڑ ڈالر تک پہنچ گیا جو ایک سال پہلے ایک ارب 47 کروڑ ڈالر تھا تاکہ مقامی پیداوار کے فرق کو پر کیا جاسکے۔روپے کی قدر 2 ستمبر سے کم ہو رہی ہے، مالیاتی اعداد و شمار اور تجزیاتی پورٹل میٹس گلوبل کے مطابق گزشتہ 52 ہفتوں کے دوران پاکستانی روپے کی قدر میں 28.7 فیصد کمی واقع ہوئی۔اس سے قبل روپیہ 28 جولائی کو 239.94 کی ریکارڈ کم ترین سطح پر پہنچ گیا تھا۔
اوگرا نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے تعین کے حوالے سے گردش کردہ خبریں بے بنیاد قرار دے دیا۔تفصیلات کے مطابق ترجمان اوگرا کی جانب سے بیان میں کہا گیا ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے تعین کے حوالے سے گردش کردہ خبریں بے بنیاد ہیں، قیمتوں کا تعین 15 ستمبر 2022 رات کو کیا جائے گا۔ترجمان کا کہنا تھا کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے بارے میں غلط معلومات پھیلانے سے گریز کیا جائے۔اوگرا کا کہنا تھا کہ مارکیٹ میں پٹرولیم مصنوعات کی سپلائی میں خلل پیدا ہوسکتا ہے۔یاد رہے یکم ستمبر کو وفاقی حکومت نے عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں کمی کے باوجود پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔جس کے مطابق پیٹرول 2 روپے 7 پیسے فی لیٹر مہنگا ہوکر 235.98 روپے کا ہوگیا جبکہ ڈیزل کی قیمت 2 روپے 99 پیسے اضافے کے ساتھ 247 روپے 43 پیسے فی لیٹر تک پہنچ گئی تھی۔جس کی وجہ سے صنعتی اور تجارتی سرگرمیاں ختم ہو جائیں گی جس کی حکومت فکر کرنے کو تیا رنہیں ہے ۔