مزید خبریں

سندھ میں ڈیم بنانے کی جگہ نہیں،وزیراعلیٰ سندھ

حیدرآباد(اسٹاف رپورٹر)وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے وفاقی وزیر مواصلات مولانا اسد محمود، صوبائی وزراء اور معاون خصوصی، چیف سیکرٹری سندھ، این ایچ اے افسران و دیگر متعلقہ افسران کے ہمراہ سندھ کی مختلف شاہراہوں سے متعلق شہباز ہال میں منعقدہ اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہاہے کہ وہ وفاقی وزیر مواصلات مولانا اسد محمود کے شکر گزار ہیں کہ وہ مصروفیات کے باوجود یہاں آئے اور سندھ کے ہائی ویز کے معاملے پر گفتگو ہوئی ہے اور کہا کہ ہماری اچھی میٹنگ ہوئی حیدرآباد سے سکھر موٹر وے پر کام کرنے پر اتفاق ہوا ہے اور اس کے علاوہ عمر کوٹ، کیٹی بندر، گھارو سمیت مختلف شاہراہوں پر بات ہوئی ،شاہراہیں بند ہیں وہاں نیشنل ہائی وے اتھارٹی اور ہم ساتھ مل کر کام کررہے ہیں، سہون لاڑکانہ انڈس ہائی وے پر 8 سے 10 فٹ پانی ہے اور موجودہ سیلاب اللہ کی طرف سے آزمائش ہے ڈیڑھ کروڑ لوگ سندھ میں بے گھر ہوئے جبکہ جہاں
بھی خیمے دستیاب تھے ہم نے لیے اور ہمیں مزید 15 لاکھ خیمے درکار ہیں اور راشن کیلیے بھی سب سے رابطہ کررہے ہیں وہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں تیسرا چکر لگا رہے ہیں اور حیدرآبادکے بعد وہ ٹنڈوالہٰیار اور ان سے آگے مزید اضلاع جائیں گے جو لوگوں کو چھوڑ کر گئے ہیں ان سے حساب بعد میں کرینگے ۔ سندھ کی سر زمین پر 120 ملین ایکڑ فٹ پانی آیا ہے کہتے ہیں کہ ڈیمز بنادیں،پانی کو گھمادیں، سندھ میں اتنا بڑا ڈیم بننے کی جگہ ہے؟ مجھے یہ بتائیں کہ پانی کو کس طرح گھما سکتے ہیں ایک سوال کے جواب میں وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ کہیں سے بھی اگرخیمے ملتے ہیں تو وہ ہم خریدنے کیلیے تیار ہیں ہم نے اپنے لوگوں کو شیلٹر دینا ہے ہم نے راشن خریدنا ہے ہم نے ریٹ اور معیار دیکر سپلائی کی دعوت دی سندھ پر بہت بڑی آزمائش ہے اور میں خود سندھ بھر کا دورہ کررہا ہوںاورہم لوگوں تک پہنچ رہے ہیں میڈیا بتارہا ہے کہ لوگ تکلیف میں ہیں لوگ واقعی تکلیف میںہیں ،اس موقع پر وفاقی وزیر مواصلات مولانا اسد محمود، صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن، صوبائی وزیر آبپاشی جام خان شورو، صوبائی وزیر ورکس اینڈ سروسز ضیا عباس شاہ رضوی، وزیر اعلیٰ سندھ کے معاون خصوصی برائے سرمایہ کاری اور پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ پروجیکٹس سید قاسم نوید قمر، معاون خصوصی صغیر قریشی، چیف سیکرٹری سندھ سہیل احمد راجپوت،ڈویژنل کمشنر حیدرآبادندیم الرحمان میمن اور دیگر افسران بھی موجود تھے۔