مزید خبریں

مطالعے کے فروغ کیلیے بڑے بچوں کیلیے عملہ نمونہ بنیں،ہر گھر میں کتب خانہ ہونا چاہیے

کراچی (رپورٹ:خالد مخدومی )مطالعے کے فروغ کیلیے بڑے بچوں کے لیے نمونہ عمل بنیں ‘ہر گھرمیںکتب خانہ ہوناچاہیے‘سوشل میڈیامہم چلائی اورکتاب میلے منعقد کیے جائیں‘بچپن سے ہی نئی نسل کو کتابوں سے روشناس کرائیں‘حکومتی سطح پر فورم منعقد کیے جائیں‘مطالعے کیلیے علم کا فروغ ضروری ہے‘ تعلیمی نصاب حصول روزگار کا ذریعہ بن کر رہ گیا۔ ان خیالات کا اظہار لا ریب حدیث اکیڈمی کی پرنسپل اورماہر تعلیم ڈاکٹر صبیحہ غوری، مصنف اور مضموں نگار سید ثمر احمد، بحریہ کالج کی وائس پرنسپل اسما بخاری اور کالم نگار یاسر رفیق نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’معاشرے میں مطالعے کے رجحان کو کس طرح فروغ دیا جا سکتا ہے؟‘‘ صبیحہ غوری نے کہا کہ معاشرے میں مطالعہ کا رحجان بڑ ھانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی نسل کو بچپن ہی میں کتابوں سے روشناس کرائیں‘ گھر میں بھلے چھوٹا سا ہی سہی مگر ایک کتب خانہ ہونا ضروری ہے کیونکہ یہ بچوں کو مطالعے کا شوقین بنانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے‘ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ گھر میں موجود کتابوں کی تعداد اور بچوں کی مجموعی تعلیمی قابلیت کے درمیان ایک مضبوط تعلق ہے‘ وہ والدین جو گھر میں زیادہ تعداد میں کتابیں رکھتے
ہیں‘ اس حوالے سے زیادہ فائدے میں رہتے ہیں کیونکہ روزانہ کی بنیاد پر کتابوں سے تعلق انہیں ان کا عادی بنا دیتا ہے‘ اس مقصد کے لیے خود مثال قائم کریں‘ خود مطالعہ کریں‘ اگر آپ یہ کام نہیں کرتے تو ہوسکتا ہے کہ بچے بھی بڑے ہونے پر کتابوں سے دوری اختیار کرلیں‘ ہم بحیثیت قوم معاشرے میں مطالعہ کُتب کا فروغ چاہتے ہیں تو اس کے لیے علم کا فروغ ضروری ہے‘ یہی ایک چیز ہے جو آج کے جدید دور میں معاشرے خصوصاً نوجوانوں کو کُتب بینی کی طرف راغب کر سکتی ہے‘ نوجوانوں کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ صرف نصاب ہی مکمل علم نہیں ہے بلکہ حقیقی علم سوچ اور مطالعہ سے حا صل ہوتا ہے‘ تعلیمی اداروں کو چاہیے کہ وہ ڈگری مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ ایسے طالبعلم پیدا کریں جو معاشرے کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کر سکیں‘ اس کے ساتھ ساتھ نوجوان نسل میں یہ چیز باور کروانے کی ضرورت ہے کہ کتاب کا کوئی نعم البدل نہیں ہو سکتا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اسکولز ، کالجز اور یونیورسٹیز میں طلبہ کے پاس وقت ہی نہیں بچتا کہ وہ اپنی مرضی سے کسی کتاب کا مطالعہ کریں کیونکہ دوڑ تو آج کے دور میں ڈگری اور پوزیشن لینے کی ہے‘ علم تو بس نام کا ہی رہ گیا ہے‘ نوجوانوں میں مطالعہ کُتب کا شعور اُجاگر کرنے کے لیے حکومتی سطح پر فورم منعقد کیے جائیں‘ نوجوانوں کو اس فورم کا حصہ بنایا جائے تاکہ آج کا نوجوان مطالعہ کُتب کی طرف متوجہ ہو۔ یاسر رفیق نے کہا کہ معاشرے میں لوگوں خاص طور پر نوجوانوں میں مطالعہ کی عادت ڈالنے یا مطالعہ کا شوق پیدا کرنے کے لیے محض انہیں اچھی کتابیں فراہم کرنے یا کتب خانے قائم کرنے سے کام نہیں چلے گاکیونکہ ایسا ممکن ہی نہیں کہ سوشل میڈیا اور ٹیلی ویژن پر گھنٹوں ضائع کرنے والے کتاب ہاتھ میں آتے ہی اسے پڑھنا شروع کردیں‘ اگر انہیں مفت میں کسی بھی موضوع پر کوئی کتاب دیں تو وہ گھر لے جاکر ایک کونے میں ڈال دیں گے۔ اس کے لیے ان کے اندر شوق بیدار کرنا ہوگا‘ اس شوق کی شدت اتنی ہو کہ وہ فیس بک، یوٹیوب اور واٹس ایپ کو چھوڑ کر مطالعہ کو اپنالیں یا کم از کم تھوڑا وقت مطالعہ کو بھی دے دیں لیکن سوال یہ ہے کہ مطالعہ کا شوق کیسے پیدا کیا جائے؟ اور یہ کام کون کرے اور کیوں کرے؟ ان کا کہنا تھاکہ ہمیں تو یہ تک فکر نہیں کہ ہمارے بچوں کو اسکولوں میں کیا پڑھایا جا رہا ہے‘ اسکولوں کی فیس ادا کرنے کے بعد ہم اپنے بچے کی طرف سے بے فکر ہوجاتے ہیں اور اگر فکر ہو بھی تو چھوٹے بچوں کو ٹیوشن لگوا دیتے ہیں اور بڑے بچوں کو کوچنگ سینٹر بھیج دیتے ہیں جبکہ خود ہمارا حال یہ ہے کہ ٹیلی ویژن پر ڈراموں، فلموں، موسیقی اور ٹاک شوز کے نام پر ہونے والے سیاسی دنگل میں گھنٹوں صرف کردیتے ہیں یا موبائل پر مذکورہ بالا چیزوں میں محو ہوجاتے ہیں یا فون پر گھنٹوں گپ شپ میں وقت ضائع کرتے ہیں‘ لوگوں میں اور وہ بھی اس دور میں مطالعہ کا شوق پیدا کرنا آسان کام نہیں‘ لوگ اپنے فائدے اور مزے یا نفسانی خواہشوں کو پورا کرنے میں تو خود ہی لگے رہتے ہیں‘ اس حوالے سے کوئی مہم چلانے یا انہیں راغب کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی لیکن مشکل اس وقت ہوتی ہے، جب پورا معاشرہ کسی مفید اور اچھے کام کے لیے تیار ہی نہ ہو تو اسے کیسے تیار کیا جائے‘ اگرچہ صورتحال مکمل طور پر مایوس کن نہیں ہے‘ کتابیں شائع بھی ہو رہی ہیں، خریدی بھی جا رہی ہیں‘ پڑھی بھی جا رہی ہیں اور پبلشر دولت بھی کما رہے ہیں‘ یقین نہ آئے تو اپنے شہر کی بک شاپس، کبھی کبھار ہونے والے کتب میلے اور اگر کراچی میں رہتے ہیں تو ہر سال ایکسپو سینٹر میں ہونے والے کراچی انٹرنیشنل بک فیئر کو دیکھ سکتے ہیں‘ مطالعہ کا ذوق وشوق پیدا کرنے کے لیے کسی کو اور کہیں سے تو آغاز کرنا ہوگا‘ سب سے پہلے ہم اپنے آپ سے آغاز کریں‘ پہلے اس حوالے سے اپنے اندر شوق پیدا کریں‘ اس امر کا جائزہ لیں کہ آخر علم ہے کیا؟ اور اس کی کیا اہمیت ہے اور اس سوال کا جواب تلاش کریں کہ علم کہاں سے حاصل ہوسکتا ہے؟ انٹرنیٹ سے یا کتابوں سے؟ لیکن ان سوالوں کا جواب کون دے گا؟ گوگل، اساتذہ، علما ، انجینئر، سائنسدان یا کوئی اور؟ اور اس کے لیے کیا تگ ودو کرنا ہوگی؟ اور ان سوالوں سے بیزار ہوکر کہیں حصول علم کا شوق ہی ماند نہ پڑجائے۔ اسما بخاری نے کہا کہ بنیادی طور پر حصول علم کے مراکز تو ہماری درسگاہیں یا تعلیمی ادارے ہی ہیں اور ہونا بھی ان کو ہی چاہیے لیکن بدقسمتی سے وہ اپنا یہ بنیادی فریضہ برسوں قبل فراموش کرچکے ہیں‘ معاشی جدوجہد کے چکر میں تعلیمی نصاب میں اس قدر رد و بدل کیا گیا کہ وہ صرف حصول روزگار کا ذریعہ بن کر رہ گیا‘ ہمارے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیز میں سب کچھ ہے، مگر علم نہیں کیونکہ علم تو وہ ہے، جو انسان اور حیوان میں فرق پیدا کرتا ہے‘ ہم اس مغربی تصور کے قائل نہیں کہ انسان سماجی حیوان ہے ، انسان اور حیوان میں بنیادی فرق علم ہی ہے اور علم بھی وہ جو نفع دینے والا ہو‘ روپے پیسے والا نفع نہیں بلکہ انسان کی شخصیت کو نکھارنے اور سنوارنے والا ہو‘ اندھیروں سے روشنی کی طرف لانے والا ہو کیونکہ جہل اندھیرا اور علم روشنی ہے‘ جب یہ بات سمجھ لی جائے گی کہ علم کی کتنی اہمیت ہے توکتاب سے دوستی خود بخود ہوجائے گئی اور یہ دوستی رفتہ رفتہ اس حد بڑھ جائے گی کہ کوئی دوست کتاب سے بہتر نہیں لگے گا۔ثمر احمد کا کہنا تھا کہ معاشرے میں مطالعہ کا رحجان بڑھانے کے لیے ایک مستقل شعوری مہم چلانے کی ضرورت ہے جس کا تقاضا ہر سوچنے سمجھنے اور درد دل رکھنے والے سے ہے‘ اگر حکومتیں بے حس اور نالائق ہیں تو ہم کیوں ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں‘ ہم کام کر سکتے ہیں‘ ان میں بغیر تھکے بار بار حکومت کو اس طرف متوجہ کرنے اور ضروری اقدامات اٹھانے کے لیے آمادہ کرنے کا سلسلہ شرو ع کیا جائے‘ کتب کے لیے پرنٹ میڈیا کارنرز محفوظ اور مستقل تعارفی و تجزیاتی سلسلے شروع کیے جائیں‘ کسی کتاب کا تجزیہ کرنے پر انعامات مقرر کیے جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ کتب کا مطالعہ کرتے ہیں وہ افراد اپنی پڑھی ہوئی کتابوں کو اپنے دوستوں کو دیں‘ اس سے بھی مطالعے کے رحجان میں اضافہ ہوسکتا ہے‘ اسی طرح سوشل میڈیا پر پرکشش مہمات ترتیب دی جائیں‘ اسی طرح ترجیحاً کتاب ہی تحفہ کرنے کی کوشش کی جائے‘ ملک کے مختلف حصوں میں کتاب میلے لگائے جائیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ موجودہ دور میں لوگوں کی قوت خرید کم ہوچکی ہے اورکتابیں مہنگی ہوکر عام افرا دکی پہنچ سے دور ہوچکی ہیں لہٰذا حکومت کو اس طرف فوری طور پر توجہ دینی چاہیے اور ممکن ہو تو اچھی کتابوں پر حکومت سبسڈی دے‘ اس کے ساتھ ساتھ دولت مند طبقے میں موجود اہلِ خیر کوکتاب کی اشاعت، سرپرستی، اہمیت اور تعاون کی تحریک چلانی چاہیے۔