مزید خبریں

طلاق و خلع کی شرح میں اضافے کی بنیادی وجہ عدم برداشت اور انا پرستی ہے

کراچی (رپورٹ: حماد حسین) طلاق و خلع کی شرح میں اضافے کی بنیادی وجہ عدم برداشت اور انا پر ستی اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی دوڑہے۔ جب سے موبائل عام ہوا ہے اْس وقت سے میاں بیوی کے رشتے میں تیسرے شخص کی مداخلت زیادہ ہوگئی ہے وہ چاہے کسی بھی شکل میں ہو مثلاً کوئی ہمسائی ، ساس، سالی وغیرہ کی شکل میں رشتوں کو توڑنے میں شیطان کا کام کرتی ہیں المیہ یہ ہے کہ جنسی اعتبار سے معاشرے میں ناہمواری ہمیں گھر سے لے کر ریاست تک اور بالخصوص ازدواجی زندگی میں واضح طور پر نظر آتی ہے، اس کے ساتھ ساتھ بے روزگاری اور مالی وسائل کی قلت،شوہر کا بیوی پر تشدد کرنا جس میں جسمانی ایذا، گالی گلوچ، بے جا مار پیٹ اور تذلیل شامل ہے۔ خاص طور پر منشیات کا عادی انسان اور بعض صورتوں میںعورت کو کم جہیز لانے پر طعن و تشنیع کا نشانہ بنانا، رہی سہی کسر فلموں ڈراموں نے پوری کر دی ہے۔ان خیالات کا اظہار ان خیالات کا اظہارجناح یونیورسٹی برائے خواتین کے شعبہ اسلامک ایجوکیشن کی چیئرپرسن ثریا قمراور ایڈوکیٹ ہائی کور ٹ عنبر مہرنے جسارت کے سوال طلاق و خلع کے بڑھتے ہوئے رجحان کی وجوہات کیا ہیں؟ کے جواب میں کیا۔ جناح یونیورسٹی برائے خواتین کے شعبہ اسلامک ایجوکیشن کی چیئرپرسن ثریا قمرکا کہنا تھا کہ اسلام کے اصولوں کے تحت تشکیل دیا گیا خا ندانی نظام ایک بہترین معاشرے کی تشکیل کا ضا من
ہے اس ضمن میں مر دو زن کے تعلق کو نکا ح کے بندھن کے ذریعے اس بات کا پا بند کیا گیاہے کہ وہ اس رشتے کے تقدس کا خیال کرتے ہوئے اپنی ذمے داریوں کو پوراکریں اور زن و شو ہر کے تعلق کو بہترین انداز سے استوار رکھتے ہوئے کنبے اور گھر کی نگہبا نی کے فر یضے کو ادا کریں۔ اگرہم آج کے معاشرے کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ گھر آبا دہو نے کے بجا ئے بر با دہورہے ہیں اور خلع اور طلاق کے واقعات کثرت سے سامنے آرہے ہیں یقیناً اسکی متعدد وجو ہات ہیں پہلی وجہ تو یہ کہ شادی کے بند ھن کو ایک تخیلاتی اور وقتی شو بازی کادرجہ دیکر اس میں دنیاوی اور مادی پیما نوں کو نما یا یاں کر تے ہوئے اسے دکھاوے کی تقر یب بنا دیا گیا ہے۔بھا ری بھرکم مہر کو شادی کی کامیابی سے مشروط سمجھ لیا گیا ہے۔ والدین لڑ کیوں کی تر بیت سے غفلت برت رہے ہیں اسے صرف اس بات کا شعور دیتے ہیںکہ بحیثیت بیو ی صرف اسی کے حقوق ہیں، اسے فرائض کی ادائیگی کی تلقین نہیں کرتے ، دوسری جا نب مردوں کا رویہ بھی تر بیت کا متقا ضی ہے ، ان کے بے جا مطا لبات اور نا منا سب رویے بھی طلاق اور خلع کی تعداد میں اضا فے کا سبب ہیں۔میا ں بیوی کا تعلق اسی وقت مضبو ط رہ سکتا ہے جب آپس میں احترام اور محبت کے سا تھ ساتھ ایثا رو قر با نی کے جذبے کی ساتھ سا تھ رشتے کو خو بصورت بنا یا جائے اور زندگی میں پیش آنے والے سردو گر م کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا جائے۔ایڈووکیٹ ہائی کورٹ عنبر مہرکا کہنا تھا کہ خاندان معاشرے کی بنیادی اکائی ہے۔شادی ایک ایسا متبرک پہلو ہے جس میں دونوں فریقین کو ایک دوسرے کے ساتھ پیار ، محبت، عزت اور احترام کے ساتھ رہنے کا پابند بنایا جاتا ہے۔رشتہ ختم کرنا اللہ پاک کے نزدیک نا پسنددیدہ فعل ہے۔اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ترجمہ: ’’اْن عورتوں کے ساتھ اچھی گزر بسر کرو اور اگر وہ تم کو ناپسند ہوں، تو ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو ناپسند کرو اور خدا اْس کے اندر کوئی بڑا فائدہ رکھ دے‘‘۔ معاشرے میں بڑھتے ہوئے اس رجحان کے لیے دل خون کے آنسو روتا ہے۔ طلاق و خلع کی شرح میں اضافے کی بنیادی وجہ عدم برداشت اور انا پر ستی اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی دوڑہے۔ جب سے موبائل عام ہوا ہے اْس وقت سے میاں بیوی کے رشتے میں تیسرے شخص کی مداخلت زیادہ ہوگئی ہے وہ چاہے کسی بھی شکل میں ہو مثلاً کوئی ہمسائی ، ساس، سالی وغیرہ کی شکل میں رشتوں کو توڑنے میں شیطان کا کام کرتی ہیں، المیہ یہ ہے کہ جنسی اعتبار سے معاشرے میں ناہمواری ہمیں گھر سے لے کر ریاست تک اور بالخصوص ازدواجی زندگی میں واضح طور پر نظر آتی ہے،اس کے ساتھ ساتھ بے روزگاری اور مالی وسائل کی قلت،شوہر کا بیوی پر تشدد کرنا جس میں جسمانی ایذا، گالی گلوچ، بے جا مار پیٹ اور تذلیل شامل ہے۔ خاص طور پر منشیات کا عادی انسان اور بعض صورتوں میںعورت کو کم جہیز لانے پر طعن و تشنیع کا نشانہ بنانا ،رہی سہی کسر فلموں ڈراموں نے پوری کر دی ہے۔ پاکستان میں فیملی کورٹس ایکٹ اکتوبر 2015 میں منظور ہوا تھا جس کے سیکشن 10 کی دفعہ 6 کے تحت قانونی طور پر طلاق و خلع کا عمل آسان تر کردیا گیا تھا جو کہ طلاق کی بڑھتی ہوئی تعداد اور اضافہ کررہا ہے۔ گز شتہ بر سوں کے مقابلے میں سال2018ء میں اعلیٰ تعلیم یا فتہ و ملازمت پیشہ خواتین میں طلاق و خلع لینے کا رحجان بڑی تیزی سے بڑھا، انا پر ستی ، خود کمانے و خود کفیل ہونے کا گھمنڈ اور معاشرتی بے راہ راوی نے ’’خانگی نظام‘‘ کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا۔سال2018ء میں خلع کے 15800 دعوے دائر ہوئے جن میں اس سال کے دوران شوبز سے وابستہ پڑھے لکھے معروف ستارے بھی خلع کے ذریعے ایک دوسرے سے جدا ہوتے رہے۔ لاہور کی 8 فیملی عدالتوں میں گھریلو جھگڑوں کے باعث خلع کے15800 دعوے دائر ہوئے جبکہ فیملی عدالتوں نے 7707 خواتین کو خلع کی ڈگریاں جاری کیں۔ پاکستان میں مصالحتی کونسلوں کے نہ ہونے کی وجہ سے خواتین کی طلاق کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ بچے حوالگی کے مقدمات میں بھی 23 فیصد سے 37 فیصد تک اضافہ ہو رہا ہے۔طرفین کے حقوق کی ادائیگی یقینی بنائیں۔عورت اور مرد کی نفسیات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ان کی پسند سوچ کا انداز ہر چیز مختلف ہے تو جب تک جنس مخالف کی نفسیات کا دونوں کو اندازہ نہیں ہوگا تو یہ ایک دوسرے کو سمجھ نہیں پائیں گے اور چھوٹی چھوٹی لڑائیاں بالآخر علیحدگی پر منتج ہوں گی اس لیے ایسی کتب کا مطالعہ میاں بیوی دونوں کو کرنا چاہیے جو مرد اور عورت کی نفسیات یا شادی شدہ زندگی کو بہتر بنانے کے لیے لکھی گئی ہیں۔ اولاد کی اچھی تربیت بہت ضروری ہے کیونکہ یہی اولاد بڑی ہوکر ایک اچھا شوہر یا ایک اچھی بیوی بنے گی ہم آنے والی نسلوں پر کام کریں گے تو معاشرہ امن کا گہوارہ بنے گا۔