مزید خبریں

احترام آدمیت

ایک انسان کے دوسرے انسان پر، انسانی برادری کی حیثیت سے اسلام نے بہت سے فرائض اور ذمے داریاں عائد کی ہیں، بالخصوص مردِ مومن کو ان ذمے داریوں سے بحسن وخوبی عہدہ برآ ہونے کی بڑی تاکید بیان کی ہے، نبی اکرمؐ جو رحمۃ للعالمین اور نبی رحمت کا لقب لے کر دنیا میں تشریف لائے کیسے ممکن تھا کہ آپ کی تعلیمات میں تمام بنی نوع انسان، بلکہ تمام مخلوقات کے معاملے میں ہدایات نہ ہوں، آپؐ نے درجہ بدرجہ تمام انسانوں کے حقوق وفرائض واضح واضح انداز میں بیان فرما کر اپنی امت کو ان کے ادا کرنے کا پابند بنایا اور بلالحاظ مذہب وملت وہ حقوق ان کو ادا کرنے کا حکم دیا۔
ان میں سب سے اہم، بلکہ تمام فرائض وحقوق کی بنیاد باہمی احترام بحیثیت انسان ایک دوسرے پر فرض کیا گیا ہے، اللہ رب العزت نے انسان کو اپنی بہت سے مخلوقات پر فوقیت وبرتری عطا فرمائی ہے، چناں چہ سورۂ بنی اسرائیل میں ارشاد ہے کہ:
’’ہم نے اولاد آدم کو عزت بخشی اور ہم نے اس کو خشکی اور سمندر میں سفر کے لیے سواریاں عطا فرمائیں اور ہم نے ان کو پاکیزہ چیزیں عطا فرمائیں اور ہم نے ان کو اپنی بہت سی مخلوق پر فوقیت وبرتری بھی عطا فرمائی‘‘۔ (بنی اسرائیل:70)
اس آیت سے صاف معلوم ہوا کہ ہر انسان کو اللہ تعالیٰ نے حرمت اور عزت عطا فرمائی ہے۔ گویا جب انسان پیدا ہوتا ہے تو وہ صاحب عزت و حرمت ہو کر پیدا ہوتا ہے، لہٰذا انسانیت کے رشتے سے بلا لحاظ مذہب وملت ہر انسان کا احترام اس کے مناسب حال کرنا ضروری ہے، نبی اکرمؐ نے بھی اسی پر عمل فرمایا او رامت کو بھی اسی کا حکم دیا۔ احترام آدمیت ایسا بنیادی اصول ہے کہ اس پر عمل کرنے کے بعد انسانیت کے تمام حقوق وفرائض کا ادا کرنا نہ صرف آسان ہو جائے گا، بلکہ ان کو ادا کیے بغیر چین نہ آئے گا… کوئی شخص بھوکا پیاسا ہو، بیمار ہو اور قابل امداد ہو یا حاجت مند ہو تو اگر احترام آدمیت کے جذبے سے دل لبریز ہے تو ہر ممکن طریقہ سے اس کی حاجت روائی کر دے گا، بلکہ اس کے بغیر اس کو چین بھی نہ آئے گا۔ ورنہ نہ تو وہ اس کی حاجت روائی کرے گا اور نہ اس کی طرف نظر اٹھا کر دیکھے گا۔ نبی اکرمؐ اور صحابہ کرامؓ نے غیر مسلموں کے ساتھ بھی حسن سلوک کا معاملہ فرمایا ہے، کیوں کہ وہ بھی انسان تھے اور آپ نے ہر ایسے اقدام سے امت کو روکا ہے جو ان کے احترام انسانیت کے خلاف ہو، چناں چہ جہاد کے موقع پر جب کہ دشمن اسلام کو تہ ِ تیغ کرنا ہی مقصود ہوتا ہے، آپ نے بار بار تاکید فرمائی کہ کسی مقتول کے ناک، کان وغیرہ نہ کاٹے جائیں، فاروق اعظمؓ نے دیکھا کہ ایک غیر مسلم دروازوں پر بھٹک رہا ہے، دریافت کرنے پر اس نے بتایا کہ میں کمزور ہونے کی وجہ سے روزی نہیں کما سکتا اور میرا کوئی رشتے دار بھی نہیں، فاروق اعظم نے اس کو اپنے ساتھ لیا اور بیت المال کے وزیر کو حکم دیا کہ اس کا وظیفہ بیت المال سے جاری کر دیا جائے۔ حق وانصاف کے معاملے میں بھی مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ: ’’اور تم کو کسی قوم کی دشمنی اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم عدل وانصاف سے کام نہ لو‘‘۔ (المائدۃ: 8) ایک انسان دوسرے انسان سے اور ایک قوم دوسری قوم سے بے رحمانہ برتاؤ اور ناانصافی کا معاملہ اسی وقت کرتی ہے جب اس کا احترام دل سے اٹھ جائے، اس آیت نے مسلمانوں پر لازم کر دیا کہ مذہب وملت کی تفریق کے بغیر، ہر شخص کے مناسب حال، اس کا احترام کرتے ہوئے، اس کے ساتھ عدل وانصاف کا معاملہ کیا جائے کہ یہ بحیثیت انسان اس کا حق ہے۔