مزید خبریں

انفاق کی اخلاقیات

ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اے ایمان والو! اپنے صدقہ وخیرات کو احسان جتا کر اور ایذا دے کر ضائع مت کرو، اس شخص کی طرح جو اپنا مال لوگوں کو دکھانے کے لیے خرچ کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ پر اور قیامت پر ایمان نہیں رکھتا۔ پس اس کی مثال ایسی ہے جیسے صاف پتھر کہ اس پر کچھ مٹی پڑی ہو، پھر اس پر زور دار بارش برسے اور اس (پتھر) کو بالکل صاف کر دے۔ کچھ بھی ہاتھ نہیں لگتا ایسے لوگوں کے جو انہوں نے کمایا اور اللہ نہیں دکھاتا سیدھی راہ کافروں کو‘‘۔ (البقرہ: 264)
درج بالا آیت سورۂ بقرہ کے چھتیسویں رکوع کی ہے، اس سورہ کے آخری رکوع سے پہلے کے چار رکوعات اسلام کے مالیاتی نظام کے متعلق احکام پر مبنی ہیں۔ جن میں ہر مسلمان کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ تجارت اور صدقہ وخیرات میں مذکورہ احکام کو ملحوظ رکھے، پھر صدقہ وخیرات کے فضائل بتائے ہیں، ساتھ ساتھ ان لوگوں کا بھی ذکر کیا ہے جو صدقات کو دوسروں کی اذیت کا سبب بناتے ہیں، نیز اسی ذیل میں ان صاحبان ایمان کا ذکر بھی کیا ہے جو خالصتاً لوجہ اللہ صدقات کا اہتمام کرتے ہیں۔ بات کو پوری طرح سمجھنے کے لیے پچھلی دو آیات کا ذکر بھی ضروری ہے، قرآن مجید میں ارشاد ہے؛ ترجمہ: ’’جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنے اموال خرچ کرتے ہیں، پھر خرچ کرنے کے بعد نہ احسان رکھتے ہیں اور نہ ہی اذیت دیتے ہیں، انہی کے لیے اجر ہے ان کے پروردگار کے پاس اور نہ ڈر ہے( قیامت کے دن) اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ نرمی کے ساتھ جواب دینا اور درگزر کا معاملہ کرنا اس صدقہ سے بہتر ہے جس کے پیچھے اذیت ہو اور اللہ بے نیاز اور بڑے ہی تحمل والا ہے‘‘۔
اپنے صدقہ وخیرات کو برباد مت کرو
لَا تْبطِلْوا صَدَقَاتِکْم… اس آیت کے ذیل میں حکم الامت حضرت تھانویؒ فرماتے ہیں:
جس طرح نماز کے لیے دو قسم کی شرطیں ہیں، شرائط صحت: جیسے وضو و طہارت۔ اور شرائط بقا: جیسے نماز میں کسی سے بات نہ کرنا، کھانے سے پرہیز کرنا وغیرہ۔ اسی طرح صدقات کے لیے بھی دو قسم کی شرطیں ہیں، ایک تو شرط صحت کہ اخلاص کے بغیر صدقہ صحیح نہیں ہوتا، لہٰذا جو صدقہ ریا اور نفاق کے ساتھ دیا جائے وہ شریعت میں معتبر نہیں۔ دوسری شرط بقا ہے کہ اگر سائل کو احسان جتایا یا ایذا پہنچائی تو صدقہ ضائع اور باطل ہو جاتا ہے۔ یہ دونوں چیزیں صدقہ وخیرات کے مفسدات میں سے ہیں۔
تین روحانی بیماریاں
زیر درس آیت میں تین لفظ آئے ہیں: ’’مَن، اذیٰ، رئا (ریا)…‘‘ یہ دراصل روحانی بیماریاں ہیں اور متعدی ہیں۔ ان بیماریوں کا مریض نہ صرف خود تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے، بلکہ اپنے قول وعمل اور رویے سے دوسروں کی اذیت کا سبب بھی بنتا ہے۔
’’مَن‘‘ کا معنی ہے، جس پر احسان کیا ہے اس پر اپنا احسان جتانا، اس پر احسان شماری کرنا، قرآن وحدیث میں اس کی ممانعت آئی ہے، حدیث شریف میں ہے، نبی کریمؐ نے فرمایا: احسان جتانے والا اور ماں باپ کی نافرمانی کرنے والا جنت میں داخل نہ ہوگا۔ (نسائی)
’’اذیٰ‘‘ کا معنی ہے کہ جس پر مال خرچ کیا ہے اس پر یا سائل پر اپنی برتری جتانے کے لیے اسے کہنا کہ تو مجھ سے کتنا مانگے گا؟ یا کہے کہ مجھے کتنا ستائے گا؟ یا اپنے دیے ہوئے کا ایسے لوگوں کے سامنے تذکرہ جن کے واقف ہونے پر لینے والے کو ناگواری ہو۔
’’ریا‘‘ کا مطلب ہے کہ لوگوں کو دکھانے کے لیے کوئی نیک عمل کرنا، تاکہ لوگ اسے اچھا سمجھیں۔ امام ماوردیؒ فرماتے ہیں: جب عطا اس ارادے پر ہو کہ وہ جزا اور شکر کی طلب سے خالی ہو، احسان جتانے اور شہرت سے بھی پاک ہو تو وہ خرچ کرنے والے کے لیے انتہائی اعلیٰ واشرف ہے اور قبول کرنے والے کے لیے باعث برکت ہے، لیکن جب عطا کرنے والا اپنی عطا سے جزا کا خواہش مند ہو اور اس کے عوض شکر اور ثنا کا طالب ہو تو وہ شہرت کا طالب اور ریا کاری کرنے والا ہے۔ (قرطبی)
nn