مزید خبریں

ائمہ کی ذمے داریاں

آپ کو صرف نماز کا امام نہیں‘ بلکہ معاشرے کا امام و لیڈر بننا ہے اور معاشرے کو محمد عربیؐ کے راستے پر چلانا ہے ؎
بمصطفیٰ ؐ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نرسیدی تمام بولہبی است
اس کے لیے آپ کو‘ اپنے آپ کو تیار کرنا ہے۔ مسجد کو اْمت کی اجتماعی زندگی کی تعلیم گاہ بنانا ہے۔ اپنے اندر یہ اہلیت پیدا کرنا ہے کہ اس مقام پر بیٹھ کر اْمت کی رہنمائی کا فریضہ انجام دے سکیں۔
معاشرے میں اس وقت مسجد کے حقیقی مقام و مرتبے کی حیثیت بہت کمزور ہے‘ اور امام عملاً اس قدر بے بس ہے کہ اسے (متولی کی اجازت کے بغیر) نماز کا وقت متعین کرنے کا بھی اختیار نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ آپ‘ ائمہ کے اندر بے پناہ قوت ہے۔ اگر آپ کے پاس اہلیت اور صلاحیت ہو تو معاشرے میں انقلاب برپا ہو سکتا ہے‘ مگر ہم ان صلاحیتوں اور امکانات سے آگاہ نہیں۔ عرب کے ریگستان میں پلنے والے لوگوں کے اندر یقین اور ایمان کی کیفیت پیدا ہوئی تو نتیجہ یہ نکلا کہ بہترین جرنیل پیدا ہوگئے۔ ان کو تاریخ کے چیلنجوں کا ادراک تھا۔ ان سے نبٹنے کی صلاحیتوں کا شعور تھا۔ انھوں نے دنیا میں عظیم فتوحات کا سلسلہ شروع کر دیا۔ ایک بڑی دنیا نے ان کے پیغام کو قبول کیا اور تاریخ کا دھارا موڑ کر رکھ دیا۔
آپ کو اس کا ادراک کرنا ہے کہ آپ کا مقام کیا ہے؟ منصب کیا ہے؟ اگر مسجد کو مرکز بننا ہے‘ اور آپ کو اس مرکز میں دعوت و ارشاد اور قیادت کا وہ کام انجام دینا ہے‘ تو آپ کے سامنے ایک ہی روشنی کا مینارہ ہے اور وہ ہیں مسجد نبوی کے امام نبی اکرمؐ۔ آپؐ کا اخلاق‘ شہرت‘ کردار‘ اخلاص‘ دلسوزی… اس کے بغیر یہ عظیم کام انجام نہیں پاسکتا ہے۔
آپ اپنے لیے کوئی لائحہ عمل بنائیں تو اس کے بنیادی نکات یہ ہونے چاہییں:
1۔سب سے پہلی اور اہم ترین بات یہ ہے کہ آپ کو صحیح چیزوںکا علم ہو جائے۔ اللہ کی وحدانیت اور رسولؐ کی شہادت آپ کی زندگی کا جزو ہو جائے۔ اسلام کی پوری روح اور اس کی پوری عمارت توحید پر قائم ہے۔ مسجد میں آنے والوں میں اللہ کی محتاجی کی کیفیت پیدا کریں۔ زندگی کے ہر مسئلے میں ہم اللہ اور اس کے رسولؐ کے محتاج ہوں۔ شعوری طور پر اس کی کوشش کرنا ہوگی اور اس کے لیے تدابیر اختیار کرنا ہوں گی۔ اللہ کی محتاجی کی نسبت پیدا کرنا‘ اللہ کے ساتھ لوگوںکا تعلق قائم کرنا‘ یہ آپ کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔
2۔آپ اپنے مقتدیوں میں نبی اکرمؐ سے محبت اور اطاعت کا جذبہ پیدا کریں۔ ذات مصطفویؐ سے عشق پیدا کریں‘ اس سے ملت کے جسد میں قوت پیدا ہوگی۔ نبی اکرمؐ کی ذات گرامی سے محبت‘ قوت کا وہ سرچشمہ ہے جو صرف آپ کے پاس ہے‘ کسی اور اْمت کے پاس نہیں۔ صنعتی ترقی اور کارخانوں کی قوت اصل قوت نہیں۔ ان سے وہ کام نہیں بنے گا جو آپ کے پیشِ نظر ہے۔
3۔اْمت کی زندگی میں دین و دنیا کی وحدت پیدا کرنا بھی آپ کا کام ہے۔
4۔علم صرف احکام اور مسائل کو جاننے کا نام نہیں‘ بلکہ احکام و مسائل کے ساتھ ساتھ حکمت اور مصلحت کو جاننے کا نام ہے۔ نبی اکرمؐ کتاب کے ساتھ ساتھ حکمت کی تعلیم بھی دیتے تھے۔ حکمت وہ چیز ہے جسے خیرکثیر کہا گیا ہے: ’’اور جس کو حکمت ملی‘ اْسے حقیقت میں بڑی دولت مل گئی‘‘۔
(البقرہ: 269)