مزید خبریں

اسلام اور تصور قومیت

سید سعادت اللہ حسینی
.امیر جماعت اسلامی، ہند
اسلام ایسے تمام تصورات کی نفی کرتا ہے جو انسانوں کے درمیان رنگ، نسل، ذات، قوم وغیرہ کی بنیاد پر تفریق کرتے ہیں۔ اسلام کا پیغام وحدت انسانی کا پیغام ہے۔ وہ اس حقیقت کو ماننے کی دعوت دیتا ہے کہ سارے انسان ایک خدا کی مخلوق اور بندے ہیں اورایک مرد اور عورت کی اولاد اور آپس میں بھائی بھائی ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اے لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمھاری قومیں اور برادریاں بنادیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیز گار ہے‘‘۔ (سورۃ الحجرات: 13)
اس آیت میں انسانی وحدت کا اسلامی اصول بیان ہوا ہے۔ رسولؐ اللہ نے فرمایا: کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فضیلت ہے نہ کسی گورے کو کسی کالے پر اور نہ کالے کو گورے پر (فضیلت ہے تو) صرف تقویٰ کی بنیاد پر‘‘۔ (مسند احمد)
اسی طرح اسلام فرد کی آزادی کا قائل ہے اور ریاست کا فرد کی آزادی پر استبدادی کنٹرول اسلام کے مزاج کے خلاف ہے۔ اس لیے فسطائیت اور انٹیگرل نیشنلزم کے تصورات کی بلاشبہ اسلام مذمت کرتا ہے۔
سورۃ الحجرات کی مذکورہ آیت میں جہاں انسانی مساوات کا اعلان ہے وہیں قبائل اور شعوب کے وجود اور ان کی ضرورت کو تسلیم کیا گیا ہے۔ رسولؐ اللہ نے قبائلی عصبیتوں کا خاتمہ فرمایا لیکن قبائل کے وجود کو ختم نہیں کیا۔ اسلام کی آمد کے بعد بھی قبیلے باقی رہے اور قبیلوں کے حوالوں سے لوگ پہچانے جاتے رہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی بنیاد پر انسانوں کی تقسیم اسلام کو منظور نہیں ہے لیکن زمانے کے حالات کے لحاظ سے، اجتماعی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے انسانوں کا جمع ہونا، کسی اجتماعی شکل کو اختیار کرنا اور اس سے اپنی شناختوں کو وابستہ کرنا اسلام کے نزدیک ناپسندیدہ نہیں ہے۔
اسلام نے وطن سے محبت کے فطری جذبہ کو قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ قرآن مجید نے اسے ظلم کی بدترین شکل قرار دیا ہے کہ لوگوں کو ان کے وطن سے بے دخل کیا جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اجازت دے دی گئی اْن لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جا رہی ہے، کیوں کہ وہ مظلوم ہیں، اور اللہ یقیناً ان کی مدد پر قادر ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکالے گئے‘‘۔ (الحج: 39 ۔40 )
سیدنا انسؓ فرماتے ہیں کہ رسولؐ اللہ مدینہ کے قریب آتے تو فرط شوق میں سواری کی رفتار تیز فرمادیتے۔ (بخاری) آپؐ دعا فرماتے تھے: اے اللہ! ہمارے دل میں مدینے کی ویسی ہی محبت پیدا فرما جیسی مکّہ کی پیدا کی ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ (بخاری) واضح رہے کہ یہ فطری جذبہ انٹیگرل نیشنلزم کے اس مصنوعی جذبے سے مختلف ہے جس میں وطن کو ’قوم سازی‘ کی بنیاد بنایا جاتا ہے اور پوری قوم کو ایک تہذیب میں ڈھالنے کی غیر فطری کوشش ہوتی ہے۔ ایک جگہ ساتھ رہنے والے مل کر جب ایک ریاست بنائیں اور ان کے بعض مفادات مشترک ہوجائیں تو اپنی جگہ سے محبت اور اس کے مفادات کی حفاظت کا جذبہ ایک فطری جذبہ ہوجاتا ہے۔ یہاں یہی مراد ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ انسان ایک سماجی جان دار ہے اور اپنی بہت سی ضرورتوں کے لیے طرح طرح کی اجتماعی شکلیں اختیار کرنے پر مجبور ہے۔ ہر اجتماعی ہیئت وفاداری چاہتی ہے۔ اور آدمی جب اس سے وابستہ ہوتا ہے تو معاہدے کی شرائط کے مطابق اس سے وابستگی اور وفاداری کا حق بھی ادا کرتا ہے اور اس کے تئیں محبت بھی اس کے دل میں فطری طور پر پیدا ہوجاتی ہے۔ آدمی جب شہر میں گھومتا ہے تو اپنے محلے اور کالونی کی نسبت سے پہچانا جاتا ہے اور اس نسبت سے دھیرے دھیرے محبت بھی اس کے اندر پیدا ہوجاتی ہے۔ کالونی کے مشترک مسائل پر کالونی کے لوگ مل کر جدوجہد کرتے ہیں۔ اسی طرح ضلع، علاقہ، ریاست ان سب سے فرد کی وابستگیاں ہوتی ہیں۔ کسی کمپنی میں کام کرتا ہے تو اس کمپنی کا وفادار ہوتا ہے۔ جس کرکٹ یا فٹ بال کی ٹیم میں کھیلتا ہے، اس کا وفادار ہوتا ہے اور اس کو جتانے کی جان توڑ کوشش کرتا ہے۔ سیاسی، سماجی و مذہبی جماعتیں، انجمنیں اور تنظیمیں اپنے کارکنوں سے وفاداری کا تقاضا کرتی ہیں۔ اسی طرح کسی علاقے میں رہنے والے لوگ ایک مشترک سیاسی نظام تشکیل دیں اور ایک دستور پر متفق ہوجائیں تو اس کی بنیاد پر ایک قوم کا بن جانا اور جائز امور میں اس قوم کی حمایت اور اس سے وفاداری اسلام کے اصولوں سے متصادم بات نہیں ہوگی۔
یہ وفاداری، وابستگی یا محبت دو صورتوں میں جرم بنے گی۔ اس کی وضاحت بھی ہم کو نصوص میں ملتی ہے۔ ایک تو اس وقت جب یہ فطری محبت یا وابستگی احساس برتری کا ذریعہ بنے اور آدمی دوسری قوموں کو حقیر سمجھنے لگے۔ اور دوسرے اْس وقت جب نا انصافی اور ظلم میں قوم کا ساتھ دیا جائے۔ حدیث میں ہے کہ ایک صحابی نے پوچھا: یارسول اللہ! کیا اپنی قوم کے آدمی سے محبت کرنا عصبیت ہے؟ آپ نے جواب دیا: ’’نہیں، البتہ یہ عصبیت ہے کہ تم اپنی قوم کی ظلم میں مدد کرو‘‘۔ (سنن ابن ماجہ)بلاشبہ سیاسی نظام کس بنیاد پر چلایا جائے اور اس کے اصول کیا ہوں؟ اس حوالے سے اسلام کا اپنا نقطہ نظر ہے۔ اہل اسلام کی یہ ذمے د اری ہے کہ اسلام کے ان اصولوں کی طرف لوگوں کو دعوت دیں اور انھیں رو بعمل لانے کی کوشش کریں اور جہاں ریاست کی زمام ان کے ہاتھوں میں ہو وہاں ان اصولوں کو نافذ کریں۔ یہاں زیر بحث مشترکہ سماجوں کی صورت حال ہے جہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے ریاست میں موجود ہوں۔ ایسی صورت حال میں امن و امان اور عدل و انصاف کے مقاصد کی خاطر کسی دستور پر متفق ہونا اور اس کی بنیاد پر ریاست کا چلایا جانا، یہی قابل عمل راستہ ہے۔
ان حدود کا لحاظ کرتے ہوئے مشترک معاہدوں کی بنیاد پر ریاست کی تشکیل اور اس کے رکن بنے رہنے کی نظیر تو خود اللہ کے رسولؐ کی سیرت سے ملتی ہے۔ رسول اللہؐ نے مدینہ منورہ میں جو ریاست تشکیل فرمائی اس میں یہودی اپنے تمام تر حقوق کے ساتھ شامل تھے۔ چناں چہ معاہدہ کے الفاظ میں یہ عبارت بھی تھی کہ ’’بنو عوف کے یہودی، مومنوں کے ساتھ ایک امت ہوں گے۔ یہودیوں کے لیے ان کا دین ہوگا اور مسلمانوں کے لیے ان کا دین۔‘‘ (البدایہ والنھایہ) بعد میں اسی طرح کا معاہدہ آپ نے نجران کے عیسائیوں کے ساتھ فرمایا تھا۔ (فتوح البلدان) اور ان کے علاوہ بھی متعدد غیر مسلم قبائل سے اس قسم کے معاہدے فرمائے۔ ان معاہدوں پر اور آپؐ اور خلفائے راشدین نیز بعد کے ادوار کی مسلمان حکومتوں کی تہذیبی اکائیوں کے تئیں پالیسی پر ہم دسمبر 2021 کے اشارات میں گفتگو کرچکے ہیں) یہ دو الگ الگ ملکوں یا ریاستوں کے درمیان معاہدہ نہیں تھا۔ رسولؐ اللہ نے ایک ریاست تشکیل دی تھی۔ آپؐ خود اس کے سربراہ تھے۔ اس ریاست کا نظم کچھ معاہدوں کی بنیاد پر تھا۔ ان معاہدوں کی خصوصیت یہی تھی کہ غیر مسلموں کو اپنے معاملات خود چلانے کی آزادی دی گئی تھی۔ انھیں اپنے دین پر عمل کی آزادی دی گئی تھی۔ اْن معاملات کی واضح نشان دہی موجود تھی جو مسلمانوں، غیر مسلموں اور ریاست کے تمام شہریوں کے درمیان مشترک ہوں گے اور ان کو چلانے کے اصول و آداب کا وضاحت کے ساتھ ذکر کیا گیا تھا۔ یہی معاملہ جدید ریاستوں میں دساتیر کا ہوتا ہے اس لیے متعدد سیرت نگاروں اور مصنفین نے یہود کے ساتھ آپؐ کے معاہدے کو ’پہلا تحریری دستور‘ قرار دیا ہے۔ اس سے اسلام کی یہ خصوصیت اجاگر ہوتی ہے کہ وہ نہ افراد پر اپنا دین بالجبر مسلط کرتا ہے اور نہ تہذیبی گروہوں کے تشخص کو ختم کرکے انھیں زبردستی اپنے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ افراد کو بھی آزادی دیتا ہے اور تہذیبی گروہوں کو بھی تہذیبی آزادی دیتا ہے۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ یہ نبوی ماڈل شہری قومیت کے تصورات سے قریب تھا۔ مماثلت کا پہلو یہ تھا کہ اس میں بھی مذہبی و تہذیبی تنوع کے حامل گروہوں کو ملاکر ایک مشترک ریاست، دستور کی بنیاد پر تشکیل پائی تھی۔