مزید خبریں

تفریحی چینلز مادر پدر آزاد نیوز میڈیا پر قدغن لگی ہوئی ہے

کراچی (رپورٹ: حماد حسین)تفریحی چینلز مادر پدر آزاد اور نیوز میڈیا پر قدغن لگی ہوئی ہے‘ پاکستان میں میڈیا کی آزادی آرویلین ریاست کے تصور سے ماخذ ہے‘خواہش اور ذاتی رائے کو خبربنا دیا جاتا ہے ‘ میڈیا کارپوریٹ کنٹرول میں چلا گیا‘ اشرافیہ سے متعلق موضوعات ’’شجرممنوعہ‘‘ کا درجہ رکھتے ہیں‘ لب کشائی کرنا جان جوکھم میں ڈالنا ہے۔ ان خیالات کا اظہار علما یونیورسٹی کی ڈین فیکلٹی آف میڈیا اینڈ ڈیزائن ڈاکٹر یاسمین سلطانہ فاروقی اور رفاہ یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر نعمان انصاری نے جسارت کے اس سوال کے جواب میںکیا کہ ’’کیا پاکستانی ذرائع ابلاغ آزاد ہیں؟‘‘ ڈاکٹر یاسمین سلطانہ فاروقی کے مطابق کہا جاتا ہے کہ آزادی صحافت شہریوں کا بنیادی حق ہے‘ حکمراں طبقہ کہتا ہے کہ میڈیا کو آزادی حاصل ہے‘ ہم میڈیا سنسر شپ پر یقین نہیں رکھتے اور خود مختار میڈیا چاہتے ہیں‘ آزادی اظہار رائے کے حامی ہیں‘ حکومت آزاد میڈیا کو فروغ دے گی‘ صحافیوں کو تحفظ ملے گا وغیرہ وغیرہ‘ سب سے پہلے تو یہ دیکھنا چاہیے کہ میڈیا کیا ہے؟ اور اس کا مقصد کیا ہے؟ ذرائع ابلاغ کا مقصد موثر ابلاغ کرنا ہے اور درست بات کو عوام تک پہنچانا ہے‘ یہ ریاست کا چوتھا ستون ہے‘ معاشرے کی بہتر انداز سے صورت گری کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے‘ درست خبروں اور صحیح رپورٹنگ اور تجزیوں کے ذریعے رائے عامہ کو ہموار کرتا ہے‘ پاکستان میں تفریحی چینل یا انٹرٹینمنٹ میڈیا تو آزاد ہے بلکہ اتنا آزاد ہے کہ انہیں کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے‘ کبھی کبھی تو اتنے غیر شائستہ اور نامعقول پروگرام دکھائے جاتے ہیں جس کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ’’پیمرا‘‘ نامی کوئی ادارہ وجود ہی نہیں رکھتا‘ کہیں کوئی ضابطہ اخلاق یا سنسر شپ پالیسی پر عملدرآمد نظر نہیں آتا‘ اس کے برعکس نیوز میڈیا پر جابجا قدغن لگائی ہوئی ہے‘ کچھ موضوعات ’’شجرممنوعہ‘‘ کا درجہ رکھتے ہیں جن پر لب کشائی کرنا اپنی جان جوکھم میں ڈالنا ہے‘ یہ درست ہے کہ ہمارا میڈیا اکثر بالکل ہی غیر ذمہ دارانہ رویے کا مظاہرہ کرتا ہے جو قوم کے مفاد میں ہونے کے بجائے ان کے انتشار کا سبب بن جاتا ہے‘ ایسے معاملات پر روکنا سمجھ میں آتا ہے لیکن جو اطلاعات یا خبریں عوام کے وسیع تر مفاد میں ہوں‘ انہیں کسی سیاستدان، اسٹیبلشمنٹ سے وابستہ ہونے کے سبب روک لینا اور ارباب اقتدار کو یا بااثر ’’شخصیات‘‘ کو تحفظ دینے کی خاطر سچائی کا گلا گھونٹنا اور خبر کو دبا دینا، عوام کو لاعلم رکھنا یا انہیں کنفیوژ کردینا اور اپنے مفادات کے لیے بکائو صحافیوں کو میڈیا پر بٹھا کر لمبے لمبے تجزیے کروانا، بڑھکیں مارنا تو میڈیا کی آزادی نہیں ‘کہنے کو میڈیا آزاد ہے‘ حقیقتاً ایسا نہیں ہے۔ ایک مرتبہ نوم چومسکی پاکستان آئے اور ایک ہفتے قیام کیا پھر وہ بھارت گئے اور وہاں 3 ہفتے رہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے پاکستانی میڈیا کو بھارت کے مقابلے میں زیادہ آزاد پایا ہے‘ خدا کرے کہ میڈیا آزاد ہو اور اتنا آزاد کہ ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر عوامی مفاد کے لیے استعمال کیا جائے‘ صحافیوں کے جان و مال کا تحفظ کیا جائے، سچ بولنے کی پاداش میں ’’غائب‘‘ نہ ہونا پڑے‘ جیسا کہ فیض نے کہا تھا ’’جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے‘‘۔ مگر سلام ہے ہماری جرأتمند صحافی برادری کو کہ انہوں نے خون دل میں اپنی انگلیاں ڈبو کر، اپنی متاع لوح و قلم چھنوا کر ہر حلقہ زنجیر میں اپنی زباں رکھ دی ہے۔ ڈاکٹر نعمان انصاری کا کہنا تھا کہ ـماضی مٹادیاگیا‘ مٹایا ہوا بھلا دیا گیا اور اب جھوٹ ہی سچ بن چکا ہے”(جارج آریل،) جارج آویل نے اپنے مشہور ناول 1984ء میں ایک ایسی ریاست کا تصور دیا جو بعد میں ‘آرویلین اسٹیٹ’ کے نام سے مشہور ہوئی‘ ایک ایسا معاشرہ تخلیق کیا جاتا ہے جو کہ آہستہ آہستہ ایک آزاد اور غیر جانبدار معاشرے کو تباہ کر دیتا ہے‘ ریاست ایک ایسی ظالمانہ پالیسی تیار کرتی ہے جس کی بنیاد پروپیگنڈے، سچ کو ماننے سے انکار اور جھوٹی خبریں پھیلانے پر رکھی جاتی ہے‘ اس تمہید کا مقصد یہ ہے کہ اگر بادی النظر میں دیکھا جائے تو دن کے 24 گھنٹے اور ہفتے کے 7 دن پاکستانی ذرائع ابلاغ خبریں اور تجزیے نشر اور شائع کر رہے ہیں اور لگتا ایسا ہے کہ میڈیا مکمل آزاد ہے لیکن یہ آزادی اصل میں ‘ آرویلین ریاستی تصور سے اخذ کی گئی ہے جس میں خواہش کو خبر بنا دینا اور ذاتی رائے کو خبر کی حیثیت سے عوام کے سامنے پیش کیا جاتا ہے اور عوام اسی کو سچ مان لیتے ہیں‘ ذرائع ابلاغ کی آزادی کی ضمانت صرف اس حد تک ہے کہ ان موضوعات کو نہ چھیڑا جائے جس سے اس ملک کی ‘اشرافیہ’ اور ‘ قومی مفاد’ کے نام نہاد تصور کے’’ پر نہ جلنے لگیں‘‘ باقی ہر غلاظت اور بے حیائی ماڈرن ازم ہے جو دکھانے کی آزادی ہے بہر حال یہ بھی آزادی تو ہے۔ مثلاً اگر اس ملک کا وزیر خزانہ بھی اپنی پریس کانفرنس میں ملک ریاض کا نام لے تو چینلز اس کی پریس کانفرنس دکھانا بند کر دیتے ہیں۔ بلوچستان یا سابق فاٹا کے علاقوں کی خبریں ویسے ہی چلتی ہیں جیسا آئی ایس پی آر پریس ریلیز میں لکھ کر بھیج دے مجال ہے کسی بڑے چینل اور بڑے نیوز ڈائریکٹر کی کہ وہ نقطہ اور فل اسٹاپ بھی تبدیل کرسکے‘ مسئلہ کشمیر پاکستانی میڈیا سے مکمل غائب کردیا گیا کیونکہ ’’فیصلہ سازوں‘‘ نے فیصلہ کرلیا تھا کہ کشمیر اب ہماری پرابلم نہیں اور میڈیا نے مکمل تعمیل کی‘ ویسے کہا جاتا ہے کہ آزادی کا تصور تجریدی ہوتا ہے اور اس تجریدیت سے اس ملک کی اشرافیہ بھرپور فائدہ اٹھاتی ہے‘ جتنی میڈیا کی آزادی ان کو پسند آتی ہے‘ اتنی دے دیتے ہیں‘ پہلے تو صورتحال یہ تھی کہ ملٹی نیشنلز اور مل ملکان یا بڑے کاروباری ادارے میڈیا چینلز کی ’’ادارتی پالیسی‘‘ اشتہارات دے کر کنٹرول کرتے تھے اور اب صورتحال یہ ہے کہ گھی بیچنے والے، بیکری والوں اور بلڈرز نے خود ہی اپنے چینل کھول لیے‘ اب پاکستانی ذرائع ابلاغ مکمل “کارپوریٹ کنٹرول” میں چلے گئے ہیں جس کے لیے نوم چومسکی “کارپوریٹ میڈیا” کی اصطلاح استعمال کرتا ہے‘ اگر پاکستانی ذرائع ابلاغ آزاد ہوتے اور سچائی بتا رہے ہوتے تو آج عوام “اشرافیہ اور لینڈ مافیا” کے رحم و کرم پر نہیں ہوتے اور اس ملک کے طاقتور لوگوں اور اداروں کو ایک باشعور عوام کا سامنا ہوتا‘ ظاہر اس سارے معاملے میں سارا قصور میڈیا کا نہیں بلکہ ریاست کا ڈھانچہ ایسا ترتیب دیا گیا ہے جس میں “آزادی” کے تانے بانے اپنی بقا کو دیکھتے ہوئے بنے گئے ہیں۔