مزید خبریں

تعلیم کا مقصد اب تربیت اور اصلاح نہیں صرف پیسا کمانا رہ گیا ہے

کراچی(رپورٹ: منیر عقیل انصاری) تعلیم کامقصداب تربیت اوراصلاح نہیں صرف پیسا کمانارہ گیا ہے ‘ہمارے معاشرے میں دولت پرستی لیٹریچر، میڈیا، فیملی و ایجوکیشن سسٹم کی وجہ سے بڑھ رہی ہے‘ہمیں اپنی نسلوں پر رحم کھاتے ہوئے اپنی پاکیزہ تہذیب سے ہم آہنگی اختیار کرنا ہوگی اس کے بغیر بچائو کی ساری صورتیں مسدود ہیں‘ انفرادی طور پر بھی ہم لوگ بے سکون ہوتے چلے جا رہے ہیں‘ وجہ یہی ہے کہ ہم اپنی خوشی اور سکون اپنے اندر تلاش کرنے کے بجائے باہر تلاش کر رہے ہیں‘ ہمیں چاہیے کہ جو رزق اللہ تعالیٰ نے حلال ذرائع سے عطا کیا ہے اس پر قناعت کریں‘ اس کا شکر ادا کریں اور اطاعت گزار بن جائیں تاکہ سکونِ قلبی اور برکتیں حاصل ہوں۔ ان خیالات کا اظہار ویمن اسلامک لائرز فورم کی چیئر پرسن طلعت یاسمین ایڈووکیٹ، پاکستان کے مقبول ترین موٹیویشنل اسپیکر، ٹرینر، استاد اور23 کتابوں کے مصنف ڈاکٹر محمد عارف صدیقی اور جامعہ کراچی شعبہ اسلامی تاریخ کے صدر نشین پروفیسر ڈاکٹر حافظ محمد سہیل شفیق نے جسارت کی جانب سے پوچھے گئے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’معاشرے میں دولت پرستی کیوں بڑھ رہی ہے؟‘‘ طلعت یاسمین ایڈووکیٹ نے کہا کہ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ہمارے سارے سوچنے والے موثر طبقات کے ذہنوں پر ہر معاملے میں مغرب کی نقالی اور جاہلانہ تقلید کی روش غالب ہے‘ وہ زندگی کے سارے معاملات میں مادہ پرست اہلِ مغرب کو ماہر، رہبر اور اپنا استاد سمجھ کر ان کے اختیار کردہ نسخوں پر عمل پیرا ہیں‘ اس صورت میں صحیح سمت میں سوچ کا عمل ہی دشوار ہے‘ یاد رکھیں کہ اگر ہم نے مادیت پرستی کی غیر فطری روش کو جاری رکھا اور نوجوان نسل کی فطرت سے ہم آہنگ پاکیزہ نصب العین سے مطابقت کی صورت پیدا نہ کی تو ہماری آنے والی نسلیں طرح طرح کی سنگین بیماریوں کا شکار ہوتی رہیں گی‘ ہم دیکھ رہے ہیں کہ نوعمر افراد اس قدر فکری انتشار کا شکار ہیں کہ ایک طرف الحاد اور دہریت کے اسیر ہیں‘ تو دوسری طرف جانوروں کی سی جنسی آزادی اور روش پر مٹے چلے جا رہے ہیں اور تیسری جانب امراضِ دل، شوگر اور بلڈپریشر کے بھی دائمی مریض بن رہے ہیں‘ ہمیں اپنی نسلوں پر رحم کھاتے ہوئے اپنی پاکیزہ تہذیب سے ہم آہنگی اختیار کرنا ہوگی‘ اس کے بغیر بچائو کی ساری صورتیں مسدود ہیں ‘ جب اپنی پاکیزہ تہذیب سے ہم آہنگی کی صورت پیدا ہوگی تو اس سے معاشی ناہمواری، امیر کے امیر تر اور غریب کے غریب تر ہونے کی فضا میں کمی پیدا ہوگی‘ اس لیے کہ پاکیزہ اسلامی تہذیب ہمیں ان ہدایات پر عمل پیرا ہونے پر مجبور کرے گی۔ ڈاکٹر عارف صدیقی نے کہا کہ معاشرے میں دولت پرستی کی 4 بنیادی وجوہات ہیں ان میں ہمارا لیٹریچر، فیملی سسٹم، ایجوکیشن سسٹم اور میڈیا شامل ہیں‘ اگر ہمارے ایجوکیشن سسٹم کے محاورے اورکہانیاں دیکھیں جو ہمیں پڑھائی جاتی ہیں‘ وہ یہ ہیں کہ باپ بڑا نہ بھیا سب سے بڑا روپیہ ‘دوسرا ہے ضرورت کے وقت گدھے کو بھی باپ بنانا پڑتا ہے‘ اب یہ چیزیں آپ کو بتاتی ہیں کہ آپ کو مادیت پرستی ہی آپ کو معاشرے میں کامیاب کرے گی‘ دوسری وجہ ہماری فیملی اور سماجی اقدار ہیں جنہیں ہم نے نظرانداز کردیا اور ہدایت کے بجائے ترقی کو کامیابی کا زینہ سمجھ لیا ہے حالانکہ ہمارا دین ہمیں کامیابی کے لیے ہدایت یافتہ ہونے کا مطالبہ کرتا ہے ناکہ ترقی یافتہ ہونے کا‘ مگر ہمارے اسکولز، ہمارا ایجوکیشن سسٹم اور ہمارا معاشرہ سب کے سب ترقی کی بات کرتے ہیں جب ایجوکیشن کی بات کریں‘ جب بچہ پڑھنے کے لیے جائے تو کہتے ہیں یہ ڈگری لے لو‘ اتنے نمبر لے لو تو تمہیں ترقی ملے گی ‘ تمہیں اچھی نوکری ملے گی ‘ تمہاری تنخواہ زیادہ ہو گی یہ سب کی سب چیزیں مادیت کی طرف لیکر جاتی ہیں حالانکہ اس سے پہلے ہوتا تو یہ تھا کہ تعلیم برائے تربیت ہوتی تھی، تعلیم برائے اصلاح ہوتی تھی، تعلیم برائے تبدیلی ہوتی تھی اب تعلیم برائے نوکری اور نوکری برائے صرف پیسا کمانا ہوگئی ہے‘ اس کی اگلی وجہ ہے کہ ہمارا میڈیا ہے‘ میڈیا چیزوں کوگلیمرائز کرکے دکھاتا ہے‘ میڈیا پر جو لائف اسٹائل دکھایا جاتا ہے‘ وہ معاشرے میںایک فیصد کیا،شاید صفر صفر ون فیصد کو بھی میسر نہیں ہے مگر ہمیں بتایا یہی جاتا ہے کہ خوشی انہی چیزوں کے ساتھ میسر ہے‘ اب جب آپ کو بتایا جائے گا کہ خوشی کا پیمانابڑی گاڑی، بڑا گھر، اچھی تنخواہ، اچھی ہوٹلنگ اور ہوائی جہاز میں سفر ہے، جب اس طرح آپ اپنے خوشی کے پیمانے سوسائٹی کے مروجہ پیمانوں پر یہ طے کر لیں تو پھر ظاہر ہے کہ سوسائٹی اسی کے اوپر ہی جائے گی تو یہ وہ وجوہات ہیں جن کی بنا پر ہمارا معاشرہ دولت پرستی کی جانب گامزن ہے لیکن اسے ریورس کرنا خاندانی اور اپنے انفرادی سکون کے لیے بہت ضروری ہے‘ بصورت دیگر فیملی کا اکائی سسٹم یہ بھی ٹوٹے گا‘ انفرادی طور پر بھی ہم لوگ بے سکون ہوتے چلے جا رہے ہیں‘ وجہ یہی ہے کہ ہم نے اپنی خوشی اور سکون اپنے اندر تلاش کرنے کے بجائے باہر کی مادی دنیا میں تلاش کرنا شروع کردیا ہے حالانکہ کے یہ تو ہمارے اندرہے ۔ ڈاکٹر محمد سہیل شفیق نے کہا کہ بات دراصل یہ ہے کہ انسان کی خواہشات کا سلسلہ لامتناہی ہے‘ جب انسان مادی خواہشات کا اسیر ہوجائے، آسائشات و تعیشات کو مطمع نظر بنا لے تو ان خواہشات کی تکمیل کے لیے دولت کا حصول ناگزیر ہوجاتا ہے جو لوگ دولت ہی کو سب کچھ سمجھتے ہیں وہ دولت پرستی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ کی خواہش انہیں بے قرار رکھتی ہے‘ یہی وجہ ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا: ’’اگر ابن آدم کے پاس سونے کی2 وادیاں بھی ہوں تب بھی یہ تیسری کی خواہش کرے گا اور ابن آدم کا پیٹ قبر کی مِٹی ہی بھر سکتی ہے۔‘‘ ہم میں سے ہر شخص دوسروں کو اپنے سامنے مرتا ہوا اور دفن ہوتا ہوا دیکھتا ہے۔ ہم یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ دنیا کی تمام دولت بھی انسان کی زندگی میں ایک سانس کا بھی اضافہ نہیں کرسکتی لیکن اس کے باوجود ہماری غفلت ختم نہیں ہوتی۔ حصولِ دولت کے لیے حرام و حلال کی کوئی پروا نہیں ہوتی‘ ہم مال کو رشوت، حرام، دھوکے اور جھوٹ سے کماتے ہیں اور دولت کی ہوس میں عاقبت خراب کرنے کا سامان کرلیتے ہیں حالانکہ چاہیے یہ کہ جو رزق اللہ تعالیٰ نے حلال ذرائع سے عطا کیا ہے اس پر قناعت کریں۔ اس کا شکر ادا کریں اور اطاعت گزار بن جائیں تاکہ سکونِ قلبی اور حلال مال کی برکتیں بھی حاصل ہوں۔