مزید خبریں

صنعتی اور زرعی ترقی ہی سے روزگار کے مواقع پیدا ہوسکتے ہیں

کراچی (رپورٹ: قاضی سراج)صنعتی و زرعی ترقی سے ہی روز گار کے مواقع پیدا ہو سکتے ہیں‘ تمام اداروں پر لیبر قوانین کا اطلاق ہونا چاہیے‘ سرکاری ادارے میں ملازمت کیلیے پیسے اور سورس ہونا جبکہ پرائیوٹ سیکٹر میں قابلیت اور تجربے کا ہونا ناگزیر ہے‘ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن ملک میں ڈیسنٹ ورک پروگرام پر عمل درآمد کے لیے کوشاں ہے۔ان خیالات کا اظہارنیشنل لیبر فیڈریشن پاکستان کے صدر شمس الرحمن سواتی،پاکستان ریلوے اسٹورڈ ویژن کے صدر اکرام یوسف ، نیشنل لیبر فیڈریشن پاکستان کے سوشل میڈیا کے نگران سید حسن علی اور پاکستان ورکرز فیڈریشن سندھ کے ایجوکیشن سیکرٹری محمد صالح ببر نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ’’باوقار روزگار کس طرح حاصل کرسکتے ہیں؟‘‘ شمس الرحمن سواتی نے کہا ہے کہ باوقار روزگار کے حوالے سے انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کی کاوشیں قابل قدر ہیں‘ ڈیسنٹ ورک پروگرام میں سہ فریقی شرکت کا اہتمام اس کی کڑی ہے لیکن حکومتی حکام اور فیکٹری مالکان کی ٹوکن شرکت اس حوالے سے ان کی غیر سنجیدگی اور عدم دلچسپی کو ظاہر کرتی ہے‘ ان دونوں فریقین کا یہ رویہ اس پروگرام کی حد تک ہی نہیں ہے بلکہ ایک مستقل طرز عمل ہے ‘ یہ لوگ مزدوروں کو انسان ہی نہیں سمجھتے‘ مالکان کو اپنے منافع اور سرکاری حکام کو اپنے بھتے سے غرض ہے‘ لیبر قوانین اورسوشل پروٹیکشن کے قوانین کے عدم نفاذ سے اس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے‘ ان فارمل سیکٹر کے پونے6 کروڑ مزدور لیبر قوانین اور سوشل پروٹیکشن سے مکمل محروم ہیں اور فارمل سیکٹر میں یہ سہولت چوتھائی حصے کو حاصل ہے اور اس میں جو رکاوٹیں ہیں ان کو مزدور اور ان کے نمائندے بھگت رہے ہیں‘ باوقار روزگار کے لیے ضروری ہے کہ لیبر قوانین اور سوشل پروٹیکشن کے قوانین کا اطلاق تمام اداروں پر ہو‘ انفارمل سیکٹر کو لیبر لا کے دائرے میں لایا جائے اور عمل درآمد میں کسی قسم کی رکاوٹیں نہ ہوں ‘ یہ تب ہی ممکن ہے کہ مالکان اور حکومتی ادارے مزدوروں کو انسان تسلیم کریں‘خلوص دل کے ساتھ اپنی ذمے داریوں کو نبھائیں‘ ٹھیکیداری نظام جیسے بیگار کیمپ سے گریز کریں لیکن اس کے لیے روزگار کے مواقع کا ہونا ضروری ہے‘ ملک میں صنعتی و زرعی ترقی سے ہی روز گار کے مواقع پیدا ہوسکتے ہیں‘ مزدور ساڑھے7 کروڑ ووٹوں کی طاقت سے 75 سال سے مسلط ٹرائیکا کو مسترد کریں اور اسلامی پاکستان، خوشحال پاکستان کے لیے امانت ، دیانت دار، خدمت گار اور سچی قیادت کا انتخاب عمل میں لائیں اس سے وطن عزیز میں باوقار روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ اکرام یوسف نے کہا کہ موجودہ دور میں باوقار روزگار حاصل کرنا ناممکن ہو گیا ہے‘ پاکستان میں باوقار روزگار کا ایک بڑا ذریعہ سرکاری ملازمت کو سمجھا جاتا تھا جس کا حصول اس وقت حکومت کی نجکاری اور ڈائون سائزنگ کی پالیسی کی وجہ سے ناممکن ہوچکا ہے‘ ملک میں پرائیویٹ ادارے باوقار روزگار فراہم کرنے کا بڑا ذریعہ تھے لیکن سیاسی و معاشی حالات بجلی اورگیس کی بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے پرائیویٹ سیکٹر اپنے ادارے بند کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں‘ ان مشکلات کی وجہ سے ہمارے تعلیم یافتہ اور ہنر مند نوجوان بیرون ملک جا کر روزگار حاصل کرنے کو باوقار روزگار کے حصول کا ذریعہ سمجھتے ہیں انہی وجوہات کی بنا پر ہمارا ملک باصلاحیت افراد سے محروم ہو رہا ہے۔ سید حسن علی نے کہا کہ پاکستان کے کسی بھی سرکاری ادارے میں باوقار ملازمت حاصل کرنے کے لیے آپ کے پاس پیسے اور سورس کا ہونا لازمی ہوجاتا ہے‘ کسی بھی ملک میں باوقار ملازمت حاصل کرنے کے لیے سب سے پہلے آپ کو ان طریقوں پر عمل کرنا ضروری ہے جس کے ذریعے ملازمت حاصل کی جا سکتی ہے‘ ایسی نوکری کیسے تلاش کریں جو آپ کے لیے صحیح ہو‘ اپنی مہارت کا تعین کرنا، اپنے مثالی کام کے انداز کی شناخت کرنا، ویب سائٹس، پیشہ ورانہ ویب سائٹس، اخباری اشتہارات اور مثلاً BrightSpyre ، Rozee ، LinkedIn ، Bayrozgar، TalentHunters، Pakistanjobsbank اور Mustakbil پر اپلائی کرنا، تنخواہ اور فوائد پر غور کرنا، اپنا سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو صاف رکھنا، انٹرویو میں اچھا تاثر دینا، مثال کے طور پر اگر آپ کے پاس سیلز اور مارکیٹنگ دونوں کا تجربہ ہے اور آپ 2 مختلف ملازمتوں کے لیے درخواست دے رہے ہیں، جن میں سے ایک سیلز اور دوسری مارکٹنگ کے لیے ہے، تو آپ 2 کوائف تیار کریں گے‘ ایک میں اپنی سیلز کی سرگرمیوں کو زیادہ بتائیں اور دوسرے میں اپنی مارکیٹنگ کی کامیابیوں کو بیان کریںگے اسی طرح ایک اچھی اور باوقار نوکری تلاش کر سکتے ہیں۔ محمد صالح ببر نے کہا کہ باوقار روزگار کے لیے اہلیت اور قابلیت کا ہونا بہت ضروری ہے جس ملازمت کے لیے آپ کوشش کر رہے ہیں اگر تجربہ نہیں تو باوقار روزگار کا حصول مشکل ہے۔