مزید خبریں

قومی اداروں کی فروخت

محنت کشوں کو دو اہم ترین مسائل کا سامنا ہے۔ ان کے علاوہ ہماری اپنی بداعمالیوں اور غلط حکمت عملی کی وجہ سے پورے ملک کو سیلاب کی تباہ کاریوں کا سامنا ہے۔ ملک کے کلیدی اور بڑے مستحکم اداروں کی فروخت سے ملک کی جڑیں کمزور ہوں گی۔ ملکی راز غیروں کے ہاتھ لگیں گے اور ملک کے انتظام میں غیر ممالک کا غلبہ ہونے کا خدشہ اپنی جگہ ہے۔ ساتھ ہی محنت کش طبقے کا بڑی تعداد میں بے روزگار ہونے کا واضح اندیشہ ہے۔ اس کی کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ کے الیکٹرک اور دوسرے صوبائی الیکٹرک اداروں کی بے لگام بجلی کی آسمانی بجلی گرنے کی سی تباہی سے محنت کش طبقہ کیا سفید
پوش طبقہ، کسان، مزدور سب ہاہاکار مچا رہے ہیں۔ کراچی میں جماعت اسلامی ایک عرصے سے احتجاج بھی کررہی ہے، دھرنے بھی دے رہی ہے، عدالتوں کے دروازے بھی کھٹکھٹارہی ہے مگر کہیں شنوائی نہیں ہے، اب لوگ انتہائی درد کے ساتھ سڑکوں پر آگئے ہیں۔
کے الیکٹرک نے سب کو بے بس اور بے کس کیا ہوا ہے۔ مرکزی اور صوبائی حکومتیں اور پیمرا اس کی پشت پناہی کرتے ہیں جب کہ کے ای بھرپور منافع کمارہی ہے اور اس کے بڑے افسران اور بورڈ ارکان کی تنخواہیں اور مراعات آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ حکومت کی بے حسی اور لاقانونی اقدامات بھی اب اس حد تک بڑھ گئے ہیں کہ وہ اپنے مختلف ٹیکسز بجلی کے اداروں کے ذریعے وصول کرنے پر آگئے ہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ اگر وقت پر بل جمع نہ کرائے جائیں تو ان کے تیار کردہ ’’اسکواڈ‘‘ بجلی منقطع کرنے آجاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پہلے بل جمع کرائو اور پھر بات کرو۔ گویا حکومت ان کی نہ صرف حمایتی بلکہ آلہ کار ہے۔ یہی وہ بات ہے جو ’’ایسٹ انڈیا کمپنی‘‘ کی یاد تازہ کرتی ہے۔ جس کے آہستہ آہستہ ہندوستان پر اثرورسوخ اور غلبے کے بعد ہندوستان پورا کا پورا انگریز کے قبضے میں چلا گیا اور برطانیہ نے سو سال تک ہندوستان پر حکومت کی۔ بجلی کے بلوں سے فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز اور دیگر حکومتی ٹیکسوں کی وصولی فوراً بند کی جائے یا انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس اور دیگر ٹیکسیشن ادارے بند کردیئے جائیں۔ مملکت خداداد پاکستان کو غیروں کے حوالے نہ کیا جائے۔