مزید خبریں

تربیت کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے اچھے انسان پیدا نہیں ہو رہے

کراچی (رپورٹ: حماد حسین) تربیت کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے اچھے انسان پیدا نہیں ہو رہے‘ تعلیمی ادارے لکیر کے فقیر ہیں‘ ادارے مالی مشکلات کا شکار ہیں‘ ہمارا نظام تعلیم مختلف طبقات میں تقسیم ہے‘ نصاب میں اسلامی تصور کو صحیح طرح سے پیش نہیں کیا گیا‘ جنگ، خودکش حملوں اور کرپشن کی وجہ سے کردار سازی بہت پیچھے رہ گئی‘ اچھے گریڈ اور نوکری کو ہی سب کچھ سمجھ لیا گیا۔ ان خیالات کا اظہار جناح یونیورسٹی برائے خواتین کے شعبہ تعلیم کی پروفیسر ڈاکٹر حمیدہ ظفر، بے نظیر بھٹو شہید یونیورسٹی لیاری کے شعبہ تعلیم کی انچارج اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر صائمہ محمود اور وفاقی اردو یونیورسٹی سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے شعبہ تعلیم اساتذہ سے وابستہ ماہ پارہ کمال نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ’’ہمارا تعلیمی نظام اچھے انسان کیوں پیدا نہیں کر رہا؟‘‘ ڈاکٹر حمیدہ ظفرکا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اقوام اور افراد کی ترقی کا انحصار تعلیم و تربیت پر ہے‘ اس لیے معاشرہ اپنے نظام تعلیم کی ترقی کیلییہمیشہ کوشش کرتا ہے‘ ماضی میں ہماری درسگاہوں اور اساتذہ کو ایک مقام حاصل تھا اور پوری دنیا ان سے استفادہ کرتی تھی‘ ان اداروں کی بدولت مختلف شعبہ ہائے زندگی میں لوگوں کے بڑے بڑے کارناموں کو آج بھی دنیا تسلیم کرتی ہے‘ اس کی وجہ یہ تھی کہ استاد غور و فکر میں آزاد تھے اور درسگاہ نصاب سازی میں مداخلت کے بجائے آسانیاں فراہم کرنے کے لیے کوشاں رہتی تھی لیکن آج ہمارے تعلیمی ادارے لکیر کے فقیر ہیں‘ حکومتی نصاب پر عمل پیرا ہونے کے لیے مجبور ہیں‘ موجودہ نظام تعلیم غور و فکر ، مشاہدہ اور تجربہ کے بجائے طلبہ کو رٹنے اور تقلید کرنے کا سبق دیتے ہیں‘ ادارے مالی مجبوریوں کے باعث بے بس ہیں‘ طبقاتی نظام تعلیم موجود ہے‘ اس وقت ہمارے ہاں تعلیمی ڈھانچے میں غیر پیشہ ورانہ افراد کی کثیر تعداد قابض ہوتی نظر آرہی ہے‘ ہمارے تعلیمی اداروں کو درپیش ایک مسئلہ سیاسی رہنماؤں کی بے جا مداخلت ہے‘ اس کے علاوہ تعلیمی اداروں میں بنیادی سہولتوں کا فقدان ہے‘ ہمارا نظام تعلیم و تربیت پر زور نہیں دے رہا صرف خانہ پوری ہے‘ اس کے ساتھ یہ کہ اگر ٹیچر خوشحال ہوگا تو تعلیم پر توجہ دے سکے گا‘ تعلیم پر صرف اور صرف ہمارا اپنا بجٹ خرچ ہو دوسروں کی مداخلت بند ہو‘ اس کا ایک اور پہلو یہ بھی سامنے آتا ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام اچھے انسان اس وجہ سے بھی نہیں پیدا کر رہا کیونکہ تعلیمی نظام میں اسلامی یا مذہبی تصور اس طرح موجود نہیں ہے جس طرح کا ہونا چاہییکیونکہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک مکمل شخصیت ہیں جنہوں نے ہمیں بڑے ہی خوبصورت انداز میں زندگی سے منسلک ہر پہلو کو بتایا اور زندگی کو کس طرح گزارنا ہے۔ بلاشبہ ان کا انداز جدید جس کو انگریزی میں ماڈرن کا نام دیا جاتا ہے جیسا کہ انہوں نے عورت کو بزنس ویمن سے لے کر بیٹی کی رائے تک اور اس کے علاوہ بھی بہت سارے خوبصورت پہلو ہیں جو کہ سارے یہاں بیان کرنا ممکن نہیں ہیں۔ تربیت کا در اصل نام ہی نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی ہے مگر دین سے دوری ہمیں اس کو سمجھا ہی نہ سکی‘ ہم نے صرف تہوار منانا ہے اسلامی بڑے دنوں کے بارے میں اپنے بچوں کو بتانا ہے اس کے علاوہ معجزات اور صحابہ کرام اور دیگر انبیاؑ کی کہانیاں اس طرح نہیں سمجھائیں جس طرح آج کل بچوں کو دیگر انگریزی اور اردو پوئم پڑھائی جاتی ہے‘ ہمیں اپنے نصاب میں اس بات کا خیال اور فوقیت دینی چاہیے کہ ہم اسلام اور اسلامی تعلیمات کو اولین ترجیح دیں تاکہ ہم اچھے انسان تعلیمی نظام کے ذریعے سے بنا سکیں۔ ڈاکٹر صائمہ محمودکا کہنا تھا کہ ہمارا نظام تعلیم بہت اچھا ہے‘ اس کا بنیادی مقصد کردار سازی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ آپ کے علم میں اضافہ کرنا ہے لیکن موجودہ دور میں تعلیم اس لیے دی جاتی ہے تاکہ طالب علم پڑھ لکھ کر اچھی جگہ نوکری کرے‘ اُسے زیادہ سے زیادہ روزگار کے مواقع ملیں اور اس کا مستقبل روشن ہوسکے‘ تعلیم کے نام پر طالب علموںکو روبوٹ بنادیا گیا ہے اور کوشش کی جاتی ہے کہ طالب علموں کے گریڈ اچھے سے اچھے آئیں‘ ہم مقابلے کی زندگی گزار رہے ہیں‘ مناسب تعلیم کی جگہ صرف معلومات فراہم کی جا رہی ہے اور رٹہ لگا کر زندگی گزارنے کی ترغیب دی جا رہی ہے‘ نفسانفسی کا عالم ہے، ہر کوئی اپنے فائدے کے بارے میں سوچ رہا ہے ‘ اس میں ہمارے نظام تعلیم کا قصور نہیں ہے کیونکہ ہم نے ہر طرف جنگ، خودکش حملے، خون خرابہ، غریبی، گلوبل وارمنگ اور کرپشن دیکھی ہے۔ جس کی وجہ سے کردار سازی بہت پیچھے رہ گئی ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ اگر تعلیم حاصل کرکے اچھا انسان نہیں بن سکتے تو تعلیم حاصل کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے‘ آخر صرف یہ کہنا چاہوں گی کہ استاد ہونے کی حیثیت سے یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ طالب علموں کی کردار سازی پر بھی خاص توجہ دیں۔ ماہ پارہ کمال کا کہنا تھا کہ موضوع کو سامنے رکھتے ہوئے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ والدین جو کچھ اپنی اولاد کو دیتے ہیں اس میں بہترین تعلیم اور تربیت بھی ہے‘ صرف تعلیم کا کہیں ذکر نہیں ہے‘ تربیت کا بھی ہے اور پھر ہمارے نظام تعلیم کا جو سینٹر آ ف گریویٹی ہے وہ پوری شدت کے ساتھ اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ آپ کے پاس ڈگری ہونی چاہیے‘ ہمارا پورا معاشرہ ڈگری زدہ ہو چکا ہے‘ ہمارے تعلیمی نظام میں تربیت کے لیے کہیں جگہ ہی نہیں چھوڑی گئی‘ ہر شخص ڈگری کے حصول میں مصروف ہے اور اس سلسلے میں ہر جائز اور نا جائز طریقے کو اختیار کرنے کے لیے تیار ہے‘من حیث القوم ہم نے کبھی اس مسئلے پر غور کرنے کا تکلف کیا ہی نہیں کہ آ خر ہمارا تعلیمی نظام ایسے لوگوں کو پیدا کر نے میں کیوں ناکام ہو گیا‘ تحریک پاکستان صرف اس وجہ سے کامیاب ہوئی کہ اس زمانے کے لوگ اعلیٰ کردار و افکار کے حامل تھے‘ اس زمانے کے لوگ کچھ کر کے دکھانے کے قائل تھے نا کہ صرف باتیں بنانے کے‘ تشکیل پاکستان کے وقت نہ ہی بڑے بڑے اسکول تھے اور نا ہی بڑے بڑے کالجز تھے اور نا ہی بڑی بڑی یونیورسٹیاں تھیں ان سب تاریخی حقیقتوں کے باوجود بلند پایہ شخصیات پیدا ہوئیں‘کردار اور افکار انسانی زندگی میں کیا کیا کرشمے رونما کر سکتی ہیں۔ بقول علامہ اقبال کے “جہان نو کی افکار تازہ سے ہے نمود ۔کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا ”