مزید خبریں

جدید نوآبادیاتی نظام کے سبب پاکستان غیر مستحکم اور اسٹیبلشمنٹ کا غلبہ ہے

کراچی (رپورٹ: قاضی جاوید) جدید نوآبادیاتی نظام کے سبب پاکستان غیر مستحکم اور اسٹیبلشمنٹ کا غلبہ ہے ‘ اسٹیبلشمنٹ کے تسلط کی وجہ سے فرقہ واریت، کرپشن،تقسیم در تقسیم کاماحول ہے ‘ عوام اسٹیبلشمنت کو نجات دہندہ سمجھتے ہیں‘ سول، ملٹری بیوروکریسی کو عوامی خدمت پر استوار نہیں کیا گیا‘ ہمارے ملک میں 80 فیصد آبادی مضر صحت پانی پینے پر مجبور ہے‘ انگریز وں نے 2 سو سال حکومت کرکے برصغیر کو تباہ کردیا‘بھوک اور خوف کے عالم میں ہرکوئی طاقتور کے پاس جاتاہے۔ان خیالات کا اظہار گجرات یونیورسٹی کی ڈا کٹر شمائلہ، ڈا کٹر سمیع اللہ، فیصل آباد کے معروف صحافی محمد عثمان اور کینیڈین صحافی ناصر عابدی نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کے غلبے کے اسباب کیا ہیں؟‘‘ ڈا کٹر شمائلہ نے کہا کہ پورے ملک میں فرقہ واریت، عدم برداشت، لوٹ مار اور تقسیم در تقسیم کا ماحول غالب ہے ‘ یہ ساری باتیں ملک میں اسٹیبلشمنٹ کے غلبے کے اسباب ہیں اور یہ چیزیں میرٹ کو بھی کامیابی سے دور کرتی ہیں‘ امیر ہو یا غریب، یہاں کوئی شخص بھی اپنے آپ کو محفوظ نہیں سمجھتا‘ اسی لیے ہر شخص جلد از جلد، زیادہ سے زیادہ مال اور وسائل حاصل کرنے کی کوشش میں مصروف ہے تاکہ کسی بھی ہنگامی صورتحال میں اپنے خاندان کی حفاظت کرسکے‘ ایک دیہاتی ان پڑھ سے لے کر اعلیٰ تعلیم یافتہ شہری نوجوان تک سب کی خواہش یہی ہے کہ کسی طرح وہ یہ ملک چھوڑ کر چلے جائیں کیونکہ نہ تو یہاں ان کی محنت کی قدر کی جاتی ہے اور نہ ہی انہیں سماجی اطمینان اور عزت حاصل ہے‘ یہی وہ عدم استحکام کی کیفیت ہے جس کا شکار ہمارا پورا معاشرہ ہو چکا ہے‘یہ ساری باتیں اسٹیبلشمنٹ کی پسندیدہ ہیں اور اس سے عوام اسٹیبلشمنٹ کو اپنا نجات دہندہ سمجھتے ہیں۔ڈا کٹر سمیع اللہ نے کہا کہ ملک میں ہر طرف بے یقینی کی صورتحال ہے‘ ان حالات میں اپنے اردگرد کے ممالک کا جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے جو کہ ایک انقلابی عمل سے گزرے اور آج وہاں کے حالات ہم سے بہت بہتر ہیں۔ مثلاً چین جو کہ ہم سے 2 سال بعد آزاد ہوا اور چینی لوگ جو کہ پوری دنیا میں ’’افیمی قوم‘‘ کے طور پر مشہور تھے لیکن آج وہی چین دنیا کی سب سے بڑی معیشت بننے جا رہا ہے‘ دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک اور ملٹی نیشنل کمپنیاں چینی معاشی پالیسیوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہیں‘چین کی مثال اس لیے بھی دے رہا ہو ں کہ ہمارا ان سے گہر ا تعلق ہے لیکن ہمارا یہ دوست بھی اکثر اوقات ہمارے حالات سے پریشان نظر آتا ہے‘ دنیا کی تقریباً 20 فیصد آبادی چین میں رہائش پذیر ہے‘ ایسی صورت حال میں جہاں ایشیا اور افریقا کی اکثریت جدید نوآبادیاتی نظام کے طفیل غربت، جہالت اور بدامنی کا شکار ہے‘ وہاں اتنی بڑی آبادی کی خوراک، رہائش، لباس اور روزگار کی ضروریات پوری کرنا کسی معجزے سے کم نہیں ہے‘ایران نے ہر طرف سے امریکا کے حواری ممالک کے درمیان گھرے ہونے کے باوجود نہ صرف اپنی قومی خود مختاری کا دفاع کیا ہے بلکہ انسانی معیار زندگی، امن و امان، صحت، تعلیم، سائنس و ٹیکنالوجی اور فنون لطیفہ میں بھی ترقی کا سفر طے کر رہا ہے‘ مسلم حکمرانوںکے منفی تعارف کے برعکس جب ہم نوآبادیاتی ذہنیت سے آزاد ہو کر تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ سولہویں اور سترہویں صدی میں مغل حکمرانوں کے ماتحت برعظیم پاک و ہند دنیا کی سب سے بڑی معیشت تھا‘ اپنی ترقی اور خوشحالی کی وجہ سے یورپ میں اسے سونے کی چڑیا کے نام سے پکارا جاتا تھا اور پوری دنیا سے سیاح اور تاجر اس کی طرف کھنچے چلے آتے تھے لیکن انگریز کے2 سو سالہ دور حکومت کے نتیجے میں برصغیر ایک بدحال، قحط زدہ، جاہل اور لڑائی جھگڑوں پر مبنی خطے میں تبدیل ہو گیا۔ محمد عثمان نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں امن اور خوشحالی کا غلبہ ہے یا پھر بھوک اور خوف کا ؟ یہ ہمیں دیکھنا ہوگا‘ ان حالات میں ہر کوئی اس جانب جاتا ہے جہاں طاقت اور تحفظ ہے‘ جسارت کے اس سوال پر غور و فکر اور تحقیق کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے معاشرے کی اکثریت خط غربت ’’2 ڈالر روزانہ آمدنی‘‘ سے بھی نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے‘ بنیادی انسانی حقوق ، خوراک، رہائش، صحت، تعلیم، روزگار دلوانے انتہائی منافع بخش کاروبار بن چکے ہیں اور وہ انہی طبقات کو دستیاب ہیں جو ان کی بھاری قیمت چکا سکتے ہیں‘ حکومتی اداروں کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق 80 فی صد سے زاید آبادی مضر صحت پانی پینے پر مجبور ہے‘ صحت اور تعلیم پر ریاستی خرچ کے حوالے سے ہمارا شمار دنیا کے بدترین ممالک میں ہوتا ہے۔ 60 فیصد سے زاید بچے اور مائیں غذائی کمی کا شکار ہیں جو معاشرہ اپنی آنے والی نسل کو مناسب خوراک بھی نہ دے سکے، اس کے تاریک مستقبل کا اندازہ لگانا کچھ مشکل کام نہیں ہے۔ ناصر عابدی نے کہا کہ پاکستان میں عدم استحکام کا پہلا سبب ملک میں جدید نوآبادیاتی نظام کا غلبہ ہے‘ سولہویں صدی سے لے کر بیسویں صدی تک یورپ کے سامراجی ممالک نے براعظم ایشیا، افریقا اور امریکا کے ممالک پر قبضہ کر کے انہیں اپنی نوآبادیات بنایا اور وہاں کے وسائل اپنے ممالک میں منتقل کیے جس کے نتیجے میں یورپ میں خوشحالی اور ترقی کے نئے دور کا آغاز ہوا۔ یورپی طاقتوں (برطانیہ، فرانس، اٹلی، اسپین وغیرہ) کے دنیا پر اس غاصبانہ قبضے کو نوآبادیاتی نظام کے نام سے یاد کیا جاتا ہے جس کے خلاف پوری دنیا میں آزادی اور حریت کی تحریکیں چلیں اور بیسویں صدی کے وسط میں ایشیائی اور افریقی اقوام نے آزادی حاصل کی‘ نوآبادیاتی نظام کی بدترین شکل برصغیر پاک و ہند میں قائم کی گئی جس کے نتیجے میں کھربوں (تقریباً 45,000 ارب) ڈالر کے مساوی دولت برصغیر سے برطانیہ منتقل کی گئی اور اس خوشحال اور تعلیم یافتہ خطے کو قحط، بدحالی، صنعتی تباہی اور جہالت میں مبتلا کر دیا گیا‘ نوآبادیاتی نظام کے خاتمے کے لیے خطے کی تمام اقوام اور مذاہب نے مل کر انگریز سامراج کے خلاف جدوجہد کی جس کے نتیجے میں انگریز کو پہلے پاک و ہند اور پھر پوری دنیا سے اپنا سامراجی بستر گول کرنا پڑا لیکن آج بھی وہاں کے اثرات ہیں‘ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کے غلبے کا دور دورہ ہے آزادی کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہماری سول اور ملٹری افسر شاہی کو عوامی خدمت کے اصول کے مطابق نئے خطوط پر استوار کیا جاتا اور ہماری سیاسی قیادت ملک و قوم کے مفاد میں داخلہ اور خارجہ پالیسی ترتیب دیتی لیکن اس کے برعکس افسر شاہی کے اداروں میں آج بھی آقا اور غلام کی نفسیات غالب ہے جہاں وہ اپنے آپ کو اعلیٰ و ارفع اور عوام کو حقیر، بدتہذیب اور جاہل خیال کرتے ہیں۔