مزید خبریں

مثالی سربراہِ خاندن مشترکہ خاندان کے تناظر میں

اللہ نے جن و انس کو اس لیے پیدا کیا کہ وہ اللہ کی بندگی کریں۔ بندگی کا تقاضہ یہ ہے کہ انسان اللہ اور بندوں کے حقوق ادا کرے۔ ان حقوق کی ادائیگی جنگلوں یا غاروں میں رہ کر نہیں ہو سکتی، بلکہ اس کے لیے انسانوں کے درمیان رہنا ہوگا اور انسانوں سے رشتے داریاں اور دوستیاں قائم کرنی ہوںگی۔ رشتوں میں اہم رشتہ ازدواجی تعلق ہے۔ اس سے خاندان کی ابتدا ہوتی ہے جو اولاد کی پرورش، دیکھ بھال اور تعلیم و تربیت کا اہتمام کرتا ہے۔ والد کی شفقت اور ماں کی محبت ایسی نسلیں تیار کرتی ہے جو زندگی کا بار اٹھانے کی صلاحیت رکھتی ہیں، معاشرے کے لیے مفید ہوتی ہیں۔ اچھی تربیت انھیں ہر میدان میں تعمیر و ترقی کی راہ پر گامزن کرتی ہے۔ ان کی اعلیٰ اخلاقی اقدار کی جانب رہنمائی کرتی ہے اور مذموم صفات سے دور رکھتی ہے، نیز اخروی دائمی زندگی کے لیے صالح اعمال کرنے کی ترغیب دیتی ہے، چھوٹے بچے ماں باپ کو دیکھ کر ان سے سیکھتے ہیں، کیوںکہ وہ کتابی سبق حاصل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ خاندان معاشرے کی بنیادی اکائی ہے۔ وسیع تر خاندان میاں بیوی بچوں، والدین اور سسرالی اقربا پر مشتمل ہوتا ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
’’اور وہی ہے جس نے پانی سے ایک بشر پیدا کیا، پھر اس نے نسب اور سسرال کے دو الگ سلسلے چلائے۔ تیرا رب بڑا ہی قدرت والا ہے‘‘۔ (الفرقان: 54)
جس گھر میں شادی شدہ جوان بیٹے موجود ہوں وہاں سربراہِ خاندان اپنے بیٹوں کی بیویوں کے لیے خسر کی حیثیت رکھتا ہے۔ خسرکا اہم کام یہ ہوتا ہے کہ وہ سب کو جوڑے رکھے اور سب کے ساتھ رشتے داری نبھائے، امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا اہتمام کرے اور سارے خاندان کو اسلام پر چلائے۔ خسر کی کئی اقسام ہوتی ہیں۔ ان کو جاننا ضروری ہے، تاکہ مناسب رویہ اختیار کیا جاسکے اور خاندان کو خوش گوار زندگی میسر آسکے۔
معاملہ فہم: اس قسم کا خسر سمجھ دار ہوتا ہے، ساس بہو کے درمیان در پیش مسائل کو حل کرتا ہے، گھر میں امن قائم رکھتا ہے اور گھر کے ماحول کو خوش گوار بنانے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔
صلح جو: اس قسم کا خسر اپنی دنیا میں مگن رہتا ہے۔ گھر میں کیا ہورہا ہے اس پر دھیان نہیں دیتا۔ اس طرح کے سربراہ کی بے بنیادی سے خاندان میں بہت مسائل پیدا ہوتے ہیں اور گھر کا ماحول پراگندہ ہوسکتا ہے۔
باتونی: اس قسم کا خسر اپنی باتوں کے ذریعے سب کو خوش رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ گھر میں تصفیے تو کرتا ہے مگر فیصلے نہیں کرتا۔ وہ مرد کا رول ادا کرنے سے قاصر رہتا ہے۔
منتظم: اس قسم کے خسر گھر کا بہت سا کام خود کرتے ہیں، محنت کرتے ہیں، گھر کے کاموں میں مدد کرتے ہیں، مثلا کپڑے دھونا اور استری کرنا وغیرہ۔ مگر یہ گھر کے معاملات میں فیصلے کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔
نائب: اس قسم کا خسراپنی اہلیہ پر انحصار کرتا ہے گویا اس کی بیوی کامل عورت ہے۔ گھر کے سارے معاملات ساس کے قبضے میں ہوتے ہیں۔ ایسے گھر میں بہو کی کچھ نہیں سنی جاتی۔
جابر: اس طرح کا خسر اپنی ہر بات منوانا چاہتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں میں دخل دیتا ہے۔ ہر معاملے میں اپنی چلاتا ہے۔ کوئی مصالحت نہیں کرتا۔
مثالی سربراہ کیسا ہو؟
مثالی سربراہ ایسا ہو جو گھر کے فیصلے بیوی، بیٹے اور بہو کے مشورے سے طے کرے۔ بہو بھی اس خاندان کی ممبر ہے۔ اسے ممبر سمجھنا چاہیے۔ دوسری طرف ساس کے منصب کا تقاضا ہے کہ اس کا احترام کیا جائے۔ خسر کو چاہیے کہ وہ ہر ایک کا خیر خواہ، ہمدرد اور رحم دل ہو۔ سب پر مہربان ہو۔ اچھے کاموں کی تعریف کرتا ہو۔ کوشش کرے کہ گھر کے اندر سب کے تعلقات آپس میں درست رہیں۔ عیب جوئی، غیبت، الزام تراشی اور بدگمانی کو روکا جائے۔ بہو کو اْس کا حق دلوایا جائے، ایک صحابی (سیدنا عمرو بن العاصؓ) نے دیکھا کہ ان کا بیٹا اپنی بیوی کی حق تلفی کر رہا ہے تو انھوں نے اپنے بیٹے کی شکایت اللہ کے رسولؐ سے کی۔ خسر کو چاہیے کہ اپنی بیٹی کے سسرال والوں اور داماد کا شکریہ بھی ادا کرے اور موقع کی مناسبت سے تحفہ تحائف بھیجا کرے۔
اللہ کے رسولؐ بحیثیت خسر
رسولؐ اللہ کی صاحبزادی سیدہ زینبؓآپؐ کے چچازاد بھائی سیدنا ابوالعاصؓ کو بیاہی ہوئی تھیں، غزوہ بدر میں وہ کافروں کی فوج کے ساتھ آئے تھے۔ قید کرلیے گئے۔ سیدہ زینبؓ نے فدیہ میں وہ ہار بھیجا جو اللہ کے رسولؐ نے سیدہ خدیجہؓ کو دیا تھا۔ آپؐ نے صحابہؓ سے مشورے کے بعد ابوالعاصؓ کو چھوڑ دیا اور ہار بھی واپس کردیا، مگر ان سے کہا کہ وہ زینبؓ کو مدینہ بھیج دیں۔ ابوالعاصؓ نے ویسا ہی کیا۔ (مسند احمد) چند برسوں کے بعد ابوالعاصؓ ایک تجارتی قافلے کے ساتھ تھے کہ مسلمانوں نے ان کو پکڑ لیا اور مدینہ لے آئے۔ اللہ کے رسولؐ نے اپنی بیٹی سے فرمایا: ’’ان کی اچھی طرح خدمت کرو۔ اللہ کے رسولؐ نے ابوالعاصؓ کو ان کے مال کے ساتھ مکہ بھیج دیا۔ انھوں نے لوگوں کو ان کا مال لوٹا دیا، پھر اپنے قبول اسلام کا اعلان کردیا اور مدینہ آگئے۔ یہ اللہ کے رسول کے حسن اخلاق کا نتیجہ تھا۔ (مشکوۃ)
سیدنا عثمانؓ اور اللہ کے رسولؐ کا رشتہ داماد اور خسر کا تھا، جو بہت نازک بھی تھا اور بہت مضبوط بھی۔ آپؐ کی دو صاحبزادیاں یکے بعد دیگر ے ان کے نکاح میں آئیں۔ جب سیدہ ام کلثومؓ کا انتقال ہوگیا تو اللہ کے رسول نے فرمایا: اگر میری تیسری بیٹی ہوتی تو میں اسے بھی عثمانؓ سے بیاہ دیتا۔ (مشکوۃ) ابن اثیر میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ایک بعد ایک اگر میری 40 بیٹیاں ہوتیں تو انھیں عثمانؓ سے بیاہ دیتا۔
سیدنا علیؓ کی پرورش اللہ کے رسولؐ کے گھر میں ہوئی، وہ آپؐ کے چچازاد بھائی اور داماد تھے۔ ان کے ساتھ بھی اللہ کے رسولؐ کا بہت گہرا لگاؤ تھا اور آپؐ بہت حسن اخلاق سے پیش آتے تھے۔ جیسا کہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ سیدنا سہل بن سعدؓ نے بیان کیا کہ رسولؐ اللہ (ایک مرتبہ) سیدہ فاطمہؓ کے گھر تشریف لائے تو آپ نے گھر میں علیؓ کو موجود نہ پایا، آپؐ نے فرمایا: اے فاطمہ! تیرے چچا کا بیٹا کہاں ہے؟ تو فاطمہؓ نے عرض کیا: میرے اور سیدنا علیؓ کے درمیان کچھ گفتگو ہوگئی ہے، جس کی وجہ سے وہ غصے میں آکر باہر نکل گئے ہیں، تو رسولؐ اللہ نے ایک شخص سے فرمایا: علیؓ کو دیکھو وہ کہاں ہیں؟ وہ آدمی (دیکھ) کر آیا اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! سیدنا علیؓ مسجد میں سو رہے ہیں اس وقت رسول اللہؐ (مسجد میں) سیدنا علیؓ کے پاس تشریف لائے اور سیدنا علیؓ لیٹے ہوئے تھے اور ان کی چادر ان کے پہلو سے ہٹ گئی تھی اور ان کے جسم کو مٹی لگی ہوئی تھی تو رسولؐ اللہ نے علیؓ کے جسم سے مٹی صاف کرنا شروع کردی اور آپ فرمانے لگے ابوتراب! اٹھ جاؤ، ابوتراب اٹھ جاؤ۔ (مسلم)
گھر کے ماحول کو خوش گوار رکھنے میں خسر کا رول بہت بڑا اہم ہوتا ہے گھر والوں کو بھی چاہیے کہ وہ خسر کے مقام و مرتبہ کو پہنچانیں اس کی ہدایات کو اہمیت دیں۔