مزید خبریں

والد کے ساتھ کاروبار میں شرکت

شریعت اسلامیہ نے مسلمانوں کو معاملات صاف رکھنے کی طرف خاص توجہ دلائی ہے، اس لیے مسلمان اپنی معاشرت میں معاملات صاف رکھنے کا خاص اہتمام کریں، خصوصاً تجارت اور کاروبار میں اس کی اہمیت بہت ہی زیادہ ہے۔ ایک شخص تجارت کر رہا ہے، اور اس کی اولاد بھی اس کاروبار میں شریک ہے تو جو بیٹے باپ کے ساتھ کاروبار میں شریک ہورہے ہیں، ان کی حیثیت (شریک، اجیر یا معاون کے طور پر) شروع سے متعین ہوجائے تو خاندانوں میں ملکیت کے اعتبار سے جو نزاعات پیدا ہوتے ہیں ان کا بڑی حد تک سدباب ہوجائے گا۔ اس لیے اس طرح کے معاملات میں پہلے سے حیثیت متعین کرنے کا اہتمام کیا جائے۔
اگر والد نے اپنے سرمایے سے کاروبار شروع کیا، بعد میں اس کے لڑکوں میں سے بعض شریک کار ہوگئے، مگر الگ سے انھوں نے اپنا کوئی سرمایہ نہیں لگایا اور والد نے ایسے لڑکوں کی کوئی حیثیت متعین نہیں کی، تو اگر وہ لڑکے باپ کی کفالت میں ہیں تو اس صورت میں وہ لڑکے والد کے معاون شمار کیے جائیں گے اور اگر باپ کی زیرکفالت نہیں ہیں تو عرفاً جو اْجرتِ عمل ہوسکتی ہے، وہ ان کو دی جائے۔
اگر والد کے ساتھ بیٹوں نے بھی کاروبار میں سرمایہ لگایا ہو اور سب کا سرمایہ معلوم ہو کہ کس نے کتنا لگایا ہے تو ایسے بیٹوں کی حیثیت باپ کے شریک کی ہوگی، اور سرمایے کی مقدار کے تناسب سے شرکت مانی جائے گی، سواے اس کے کہ سرمایہ لگانے والے بیٹے کی نیت والد کے یا مشترکہ کاروبار کے تعاون کی ہو شرکت کی نہ ہو۔
اگر کاروبار کسی لڑکے نے اپنے ہی سرمایے سے شروع کیا ہو لیکن بطور احترام دکان پر والد کو بٹھایا ہو یا اپنے والد کے نام پر دکان کا نام رکھا ہو، تو اس صورت میں کاروبار کا مالک لڑکا ہوگا۔ والد کو دکان پر بٹھانے یا ان کے نام پر دکان کا نام رکھنے سے کاروبار میں والد کی ملکیت و شرکت ثابت نہ ہوگی۔
باپ کی موجودگی میں اگر بیٹوں نے اپنے طور پر مختلف ذرائع کسب اختیار کیے اور اپنی کمائی کا ایک حصہ والد کے حوالے کرتے رہے تو اس صورت میں باپ کو ادا کردہ سرمایہ باپ کی ملکیت شمار کی جائے گی۔
اگر کسی وجہ سے والد کا کاروبار ختم ہوگیا لیکن کاروبار کی جگہ باقی ہو، خواہ وہ جگہ مملوکہ ہو یا کرائے پر حاصل کی گئی ہو، اور اولاد میں سے کسی نے اپنا سرمایہ لگا کر اسی جگہ اور اسی نام سے دوبارہ کاروبار شروع کیا، تو اس صورت میں جس نے سرمایہ لگاکر کاروبار شروع کیا، کاروبار اس کی ملکیت ہوگا، والد کی نہیں۔ لیکن وہ جگہ (خواہ مملوکہ ہو یا کرایے پر لی گئی ہو) دوبارہ کاروبار شروع کرنے والے کی نہیں بلکہ اس کے والد کی ہوگی۔ والد کی وفات کی صورت میں اس میں تمام ورثا کا حق ہوگا، اور اسی طرح کاروبار کی گڈوِل بھی باپ کا حق ہے اور اس کی وفات کے بعد تمام ورثا کا حق ہوگا۔
اس موضوع سے متعلق سماج میں پیش آنے والے مختلف مسائل ہیں جن کو واضح کرنے اور عام مسلمانوں کو ان سے واقف کرانے کی ضرورت ہے۔ اس لیے یہ اجتماع اکیڈمی سے اپیل کرتا ہے کہ وہ اس سلسلے میں ایک مفصل رہنما تحریر تیار کرے اور ان میں جو مسائل قابلِ تحقیق ہوں حسبِ گنجایش آیندہ منعقد ہونے والے سیمی ناروں میں انھیں اجتماعی غوروفکر کے ذریعے طے کرے۔
ائمہ و خطبا اور علماے کرام سے اپیل کی جاتی ہے کہ وہ اپنے اپنے علاقے میں معاملات کی بہتری کے سلسلے میں ذہن سازی کریں، اور شرکت و میراث وغیرہ کے جو شرعی اصول و احکام ہیں ان سے لوگوں کو آگاہ کریں۔ خاص طور پر والدین، اولاد، بھائیوں اور میاں بیوی کے درمیان شرکت کے مسائل سے واقفیت ضروری ہے۔
(سفارشات از سینیمار اسلامی فقہ اکیڈمی، ہندوستان 2010)