مزید خبریں

رسائل و مسائل

استخارہ اور اس پر عمل
سوال: استخارہ کرنے پر جو خواب نظر آئے اس کی تعبیر کیسے کی جائے؟ کیا کسی ایسے شخص سے، جو خواب کی تعبیر جانتا ہو، پوچھنا جائز ہے؟
جواب: استخارہ حدیث سے ثابت ہے۔ اس کا ایک طریقہ بیان کیا گیا ہے۔ استخارہ کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص دو معاملات میں سے کسی ایک کا فیصلہ نہیں کر پارہا ہے تو وہ استخارہ کی نماز ادا کرتا ہے اور دعا کرتا ہے، پھر سو جاتا ہے تو اس بات کا امکان رہتا ہے کہ اس شخص کو اللہ تعالیٰ خواب میں کسی ایک بات کی طرف یکسو کر دے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ شخص استخارہ کے بعد بھی کسی ایک رائے پر یکسو نہ پائے۔ اگر استخارہ کرنے کے بعد اسے کوئی خواب نظر آتا ہے تو اس کی حیثیت ایک عام خواب کی سی ہوگی۔ خواب کی تعبیر ایک مخصوص فن ہے۔ ہر شخص کے لیے اس کی تعبیر بتانا ممکن نہیں ہے۔ کوئی شخص خواب کی تعبیر بتائے تو ضروری نہیں کہ وہ سو فیصد صحیح ہو۔ بعض خوابوں کی تعبیر الٹی ہوتی ہے۔ مثلاً کسی شخص نے خواب میں اپنے کسی عزیز کے مرنے کا خواب دیکھ لیا۔ اس کا عین امکان ہے کہ اس کی تعبیر یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ اس عزیز کی مدت عمر میں اضافہ کرے گا۔ خواب جو دیکھا گیا ہے اس کی تعبیر ویسی ہی ہوگی یا اس کے برعکس، دوسرے یہ کہ کوئی شخص اس خواب کی جو تعبیر بتا رہا ہے، وہ صحیح ہے یا نہیں؟ اس کا فیصلہ کرنا ممکن نہیں ہے۔ حدیث میں استخارہ کی اجازت دی گئی ہے۔ استخارہ کیا جا سکتا ہے، لیکن اس کے نتیجے میں ہمیں جو کچھ دکھائی دے، ضروری نہیں ہے کہ وہ ہمارے لیے واجبِ تعمیل ہو۔
٭…٭…٭
رقم نہ ہو تو زکوٰۃ کیسے ادا کریں؟
سوال: کسی شخص پر زکوٰۃ واجب ہے، لیکن اس کے پاس رقم نہیں ہے، وہ زکوٰۃ کیسے ادا کرے؟
جواب: ایک ہے زکوٰۃ کا واجب ہونا اور دوسرا ہے اس کا ادا کرنا۔ زکوٰۃ واجب ہونے سے پہلے بھی ادا کی جا سکتی ہے۔ ہمارے اوپر زکوٰۃ ایک سال کے بعد فرض ہوگی، لیکن ہمارے پاس غریب آتے رہتے ہیں، ہم ان کو کچھ رقم زکوٰۃ کی نیت سے دیتے رہیں، سال بھر کے بعد ہم اس کا حساب کر لیں۔ جتنی زکوٰۃ واجب ہوئی ہے، اس میں سے اس رقم کو کم کر دیں، یہ جائز ہے۔ اسی طرح زکوٰۃ واجب ہونے کے بعد کچھ تاخیر سے اس کی ادائیگی کی جاسکتی ہے۔ مثلاً ہمارے اوپر دو ہزار روپے واجب ہوئے، ہم نے اس رقم کو اپنے پاس الگ رکھ لیا اور سوچا کہ اائندہ جو بھی غریب آتے رہیں گے، ان کو اس میں سے تھوڑا تھوڑا ادا کرتے رہیں گے، ایسا کر نا بھی جائز ہے۔ اگر ہمارے اوپر زکوٰۃ فرض ہوگئی ہے، لیکن ہمارے پاس رقم نہیں ہے، تو ظاہر ہے کہ ہم انتظار کریں گے اور بعد میں جب رقم کا انتظام ہو جائے گا تو اس میں سے زکوٰۃ ادا کر یں گے۔
٭…٭…٭
حمل کے ابتدائی ایام میں اسقاط
سوال: حمل کے ابتدائی تین مہینوں میں چوں کہ بچے میں جان نہیں پڑتی، اس لیے کیا اس مدت میں حمل کو ضائع کروانا کوئی گناہ نہیں ہے؟ اس سلسلے میں رہنمائی فرمائیے۔ بہت سی خواتین اس مدت میں اسقاط کروانے کو گناہ نہیں سمجھتی ہیں۔
جواب: پہلی بات تو یہ ہے کہ جنین میں روح پڑنے کی مدت حدیث میں تین ماہ نہیں، بلکہ ایک سو بیس (120) دن یعنی چار ماہ بتائی گئی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ عام حالات میں اسقاط کروانا کسی بھی وقت جائز نہیں ہے۔ فقہاء نے ایک سو بیس دن سے قبل اسقاط کی اجازت دو شرائط کے ساتھ دی ہے: ایک تو یہ کہ کسی ذریعے سے جنین میں کسی نقص کا پتا چل گیا ہو۔ یہ نقص جسمانی بھی ہو سکتا ہے اور دماغی بھی۔ یہ معلوم ہو جائے کہ دوران حمل جنین کا نشو ونما صحیح طریقے سے نہیں ہو رہا ہے۔ جب بچہ پیدا ہوگا تو دماغی طور سے بہت کم زور ہوگا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ حمل کو جاری رکھنے کے نتیجے میں زچہ (حاملہ) کی جان کو خطرہ ہو، یا اس کی صحت کے بہت زیادہ متاثر ہونے کا اندیشہ ہو۔ ان دونوں صورتوں میں بعض علماء ایک سو بیس دن کے اندر اسقاط حمل کو جائز قرار دیتے۔ بعض علماء تو کسی بھی صورت میں اور کسی بھی مدت میں اسقاط کی اجازت نہیں دیتے ہیں۔ بہر حال عام حالات میں بغیر کسی حقیقی عذر کے ابتدائی ایام میں اسقاط حمل کروانا جائز نہیں ہے۔