مزید خبریں

مہمان داری

مہمان یا سفر کر کے آنے والے مہمان کے لیے کھانے پینے کا معقول بندوبست کرنا: سیدنا ابراہیمؑ کے پاس جب دو مہمان آئے تو ان کے لیے دْنبے کا ذبح کرنا اور ان کے سامنے وافر مقدار میں کھانا پیش کرنا سنتِ ابراہیمی اور ان کی اْمت کے لیے ایک عملی مثال ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ گو سیدنا ابراہیمؑ ہماری طرح گھر میں جو دال دلیہ موجود ہوتا پیش کرسکتے تھے لیکن انھوں نے مہمانوں کے اکرام اور تواضع کے لیے خصوصی طور پر دْنبے ذبح کروا کے کھانا تیار کرایا۔ گویا عام روزمرہ کے کھانے کے مقابلے میں زیادہ اہتمام کیا گیا۔
یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ موجودہ دور میں جب وقت میں برکت نہیں رہی، اور معاشی مسائل نے افراد کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے، ایسے میں روز مہمانوں کے لیے بڑے پیمانے پر تواضع کا اہتمام کرنا مشکل ہے، تاہم یہاں اس پہلو سے بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ وقت اور مال کی برکت میں کمی کیوں آئی ہے؟ کیا اس کا سبب یہ نہیں ہے کہ ہم اپنے بھائی کے لیے وہ پسند نہیں کرتے جو اپنے لیے پسند کرتے ہیں، اور چاہتے ہیں کہ اپنی ضروریات کا معاملہ ہو تو دل کھول کر خرچ کریں لیکن اگر کوئی مہمان آئے تو سادگی کی دلیل کے سہارے کم سے کم اہتمام کیا جائے۔ بلاشبہہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ اسراف کو پسند نہیں فرماتے اور کھانے پینے کے حوالے سے یہ اصول بیان کردیا گیا کہ کھائو پیو لیکن اسراف نہ کرو۔ (الاعراف: 31) اس آیت مبارکہ سے یہ بات پھر بھی ثابت نہیں ہوتی کہ مہمان کو صرف دال دلیہ پر ٹرخا دیا جائے اور خود لذیذ کھانے کھائے جائیں۔ ہمارے ہاں تو مہمان نوازی کرتے ہوئے خود بھوکا رہنے، بچوں کو بھوکا سْلانے کی روایت بھی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے سراہا ہے۔
تین دن تک مہمان داری کا مفہوم بھی یہی سمجھ میں آتا ہے کہ اس عرصے میں مقابلتاً زیادہ اہتمام کیا جائے، اور پھر مہمان کو گھر کے افراد کی طرح سے عزت و احترام کے ساتھ اکل و شرب میں شریک کیا جائے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ تین دن بعد مہمان کو چلے جانے کے لیے کہا جائے۔
عملی طور پر اگر دیکھا جائے تو رزق کا وعدہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے نہ صرف انسانوں بلکہ پرندوں سے بھی کیا ہوا ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ وہ اپنا کھانا ساتھ اٹھائے نہیں پھرتے اور گو صبح کو خالی پیٹ نکلتے ہیں لیکن شام کو بھرے پیٹ کے ساتھ اپنے مسکن پر واپس آتے ہیں۔ گویا ہر مہمان جو آتا ہے وہ اپنا رزق اللہ کی طرف سے لے کر آتا ہے اور اس کی آمد کی بنا پر گھروالوں کو بھی روز مرہ کے کھانے سے مقابلتاً بہتر کھانا مہمان کے بہانے کھانے کو مل جاتا ہے۔
مہمان داری کے لیے بنیادی شرط خلوصِ نیت ہے۔ اگر مہمان کا استقبال یہ کہہ کر کیا جاتا ہے کہ اھلًا وسھلًا تو پھر اسے اپنے گھر والوں کی طرح معقول غذا اور آرام پہنچانا میزبان پر فرض ہوجاتا ہے۔ بجٹ لازمی طور پر ایک حقیقت ہے لیکن خلوصِ نیت سے مہمان داری برکت و سعادت کا باعث ہوتی ہے۔ تاہم، بے جا تکلف اور اِسراف سے بچنے کا بھی اہتمام ہونا چاہیے۔ اپنے وسائل میں رہتے ہوئے مہمان کی تواضع اور خاطرداری، اسلامی آداب میں سے شامل ہے۔