مزید خبریں

صبر کے ثمرات

صبر کے فوائد بے شمار ہیں، دنیوی زندگی میں بھی اور اخروی زندگی میں بھی۔ قرآن نے ان فوائد سے اچھی طرح متعارف کرایا ہے۔ یہاں چند فوائد کا ذکر کیا جارہا ہے۔
آخرت میں کامیابی: جو لوگ صبر کرتے ہوئے آخرت میں کامیابی کی امید رکھتے ہیں، ان کے لیے آخرت میں واقعی بڑی کامیابی ہوگی، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’پس اللہ تعالی انھیں اْس دن کے شر سے بچا لے گا اور انھیں تازگی اور سرور بخشے گا اور ان کے صبر کے بدلے میں انھیں جنت اور ریشمی لباس عطاکرے گا‘‘۔ (سورہ دہر: 11-12)
آخرت میں ملائکہ ہر طرف سے صابرین کے استقبال کے لیے آئیں گے اور ان سے کہیں گے: ’’تم پر سلامتی ہے، تم نے دنیا میں جس طرح صبر سے کام لیا اس کی بدولت آج تم اس کے مستحق ہوئے ہو‘‘۔ (سورہ رعد: 24) سورہ زمر میں ارشاد ہوا ہے: ’’صابروں کو ان کا اجر بے شمار ملے گا‘‘۔(آیت 10)
گناہوں سے نجات: اللہ تعالی صابروں کے گناہ معاف کردے گا۔ اللہ تعالی فرماتا ہے: ’’مگر جن لوگو ں نے صبر کیا اور نیک اعمال کیے، انھی لوگوں کے لیے بخشش اور بڑا ثواب ہے‘‘۔ (ہود : 11) احادیث میں اس بات کی صراحت کی گئی ہے کہ پریشانیوں پر صبر کرنے کے نتیجے میں مومن بندوں کے گناہ جھڑتے ہیں۔ ایک روایت میں ہے ’’مومن کو جو مصیبت پہنچتی ہے، تھکاوٹ، غم، بیماری اور ایسے تفکرات جو رنجیدہ کردیں، ان کے باعث گناہ جھڑتے ہیں‘‘۔ (ترمذی) اور بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ ’’جب مسلمان کوکوئی بھی تکلیف پہنچتی ہے تو اس کے گناہ اس طرح جھڑتے ہیں جیسے درخت کے پتے جھڑجاتے ہیں‘‘۔ (بخاری)
منصب امامت وقیادت: صبر کرنے والوں کے تعلق سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’جب انھوں نے صبر کیا تو ہم نے ان میں بہت سے پیشوا بنادیے جو ہمارے حکم سے ہدایت کیا کرتے تھے اور وہ ہماری آیتوں پر یقین رکھتے تھے‘‘۔ (السجدہ: 24) اس آیت کے ضمن میں ابن قیمؒ نے لکھا ہے کہ ’’دینی امامت وقیادت یقین اور صبر سے حاصل ہوسکتی ہے‘‘۔ (افادات ابن قیم)
سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالی نے مختلف امتحانات میں کامیابی کے بعد امامت و قیادت کے منصب پر فائز کیا: ’’یاد کرو کہ جب ابراہیم کو اس کے رب نے چند باتوں میں آزمایا اور وہ ان سب میں پورا اتر گیا، تو اس نے کہا: ’’میں تجھے سب لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں‘‘۔ (بقرہ: 124) فرد اور امت دونوں کو امامت و قیادت کے منصب پر فائز ہونے کے لیے صبرکے مختلف مراحل سے گزرنا پڑتا ہے جب کہ بے صبری امامت و قیادت سے فرد اور امت کو معزول کردیتی ہے۔
فرد و قوم کو باوزن اور باوقار بناتا ہے: جس شخص کے اندر صبر نہیں ہوتا اس کی شخصیت بے وزن اور بے وقار ہوتی ہے۔ وہ جذبات کا اسیر اور خواہشات نفس کا غلام ہوتا ہے۔ خواہشات اور جھوٹی تمنائیں جدھر چاہتی ہیں اس کا رخ پھیر دیتی ہیں۔ جیسے بے وزن، ہلکی، پھلکی چیزوں کو ہوائیں جدھر چاہتی ہیں اڑا کر لے جاتی ہیں اسی طرح قومیں بھی اپنا وزن کھو بیٹھتی ہیں، جس کے افراد کی اکثریت متانت و سنجیدگی اور تدبر و ہوشمندی سے محروم، عجلت پسند اور جذباتی ہوتی ہے۔ مومن صابر سنجیدہ اور باوقار ہوتا ہے، ایک مومن کا جس قدر شریعت پر یقین ہوتا ہے اسی قدر مصائب پر صبر کی قدرت حاصل ہوتی ہے۔ اللہ کا فرمان ہے۔ ’’پس صبر کیجیے بیشک اللہ کا وعدہ حق ہے اور آپ کو کافر بے وزن نہ کردیں‘‘۔ (سورہ روم: 60)
آج امت کا کوئی خاص وزن نہیں ہے اس کی بڑی وجہ یہی بے صبری اور بے یقینی ہے۔