مزید خبریں

مسلمان خواتین اور شخصیت سازی

ہونا تو یہی چاہیے کہ ہر شخص کی تعمیر و ترقی میں گھر اور سماج کا پورا حصہ رہے۔ لیکن یہ مثالی صورت ہے۔ مثالی گھر اور مثالی سماج میں ایسا ہی ہوگا۔ لیکن ہر گھر اور ہر سماج میں ایک لڑکی کو اپنی شخصیت کی تعمیر و ترقی کے لیے مناسب ماحول ملے، یہ ضروری نہیں ہے۔ اس لیے ہر لڑکی کے پاس شخصیت کی تعمیر وترقی کا اپنا ذاتی منصوبہ ہونا چاہیے، جس میں وہ سب کا تعاون تو حاصل کرے لیکن کسی پر منحصر نہ رہے۔
زندگی کے اعلی مقاصد اور نصب العین کا شعور بھی آپ خود حاصل کریں۔ زندگی کے مقصد کو سامنے رکھ کر زندگی کا منصوبہ بھی خود بنائیں اور اس میں رنگ بھرنے کے لیے اپنی شخصیت کو تیار کرنے کی ذمے داری بھی خود ہی اْٹھائیں۔
اس پورے سفر میں اگر آپ کو اپنے گھر، خاندان اور سماج سے تعاون ملے تو اس پر اللہ کا شکر ادا کریں۔ اور اگر کسی قسم کا تعاون نہ ملے توگلے شکوے میں وقت ضائع کرنے کے بجائے اپنے لیے راہیں تلاش کریں اور اپنے دل میں خود آگے بڑھنے کا حوصلہ پیدا کریں۔
شخصیت کی تعمیر میں اعلی نمونے کی بہت اہمیت ہے، اگر آپ کو اپنے گردو پیش میں اعلی نمونے نہیں ملیں، تو تاریخ کے معتبر صفحات میں تلاش کریں۔
قرآنی نمونوں کو سامنے رکھیں
قرآن مجید میں عالی ہمت مومن عورتوں کے متعدد نمونے پیش کیے گئے ہیں۔ مسلم خواتین کے لیے ان میں رہنمائی کا بڑا سامان ہے۔
قرآن مجید میں بڑے کارنامے انجام دینے والی جتنی نیک عورتوں کا ذکر ہے، ان میں سے زیادہ تر نے خود اپنے بل پر وہ کارنامے انجام دیے۔ ملکہ سبا نے خود اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کیا، جس کے بعد پوری قوم نے اسلام قبول کرلیا۔ فرعون کی بیوی نے فرعون کے نہایت شدید مظالم کا بے نظیر شجاعت کے ساتھ سامنا کیا۔ سیدنا موسیؑ کی ماں نے شیر خوار بچے کو صندوق میں رکھ کر نہایت جرأت کے ساتھ دریا میں ڈال دیا۔ موسیؑ کی بہن نے تنِ تنہا فرعون کے محل تک جاکر نہایت مشکل اور خطرناک مہم کو انجام دیا۔ سیدہ مریمؑ کی ماں نے پیٹ میں پل رہے بچے کو اللہ کے لیے وقف کرنے کا خود فیصلہ کیا۔ مریمؑ نے تنہا اپنی قوم کی اذیتوں کا سامنا کیا۔
اسی طرح قرآن مجید میں ایسی نیک خواتین کا بھی ذکر ہے جنھوں نے اپنے شوہروں کا مشکل ترین حالات میں ساتھ دیا اور ذرا کم زوری نہیں دکھائی۔ سیدنا ابراہیمؑ کی بیوی نے ان کے ساتھ ہجرت کی۔ موسیؑ کی بیوی نے فرعون کی بادشاہت والے مصر کی طرف اپنے شوہر کے ساتھ سفر کیا۔ یہ دونوں ہی سفر سر پر کفن باندھ کر چلنے والے سفر تھے۔
محض اللہ کی خوشنودی کے لیے سیدنا اسماعیلؑ کی والدہ نے مکہ کی بے آب و گیاہ سر زمین میں بسنا قبول کیا۔
قرآن مجید میں مومن عورتوں کے تذکرے نہایت حوصلہ بخش ہیں۔ ان کا بار بار مطالعہ کرنا چاہیے۔ ان سے جرأت و شجاعت اورقربانی کا سبق سیکھنا چاہیے۔
تاریخ کے بہترین نمونے سامنے رکھیں
امہات المومنینؓ اور صحابیاتؓ کی عظیم الشان سیرت میں بھی ہر دور کی مسلم خواتین کے لیے ہمت و حوصلے کا بڑا سامان ہے۔
سیدہ خدیجہؓ نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور پیارے نبیؐ کی قدم قدم پر مددکی۔
سیدہ زینب، رقیہ، ام کلثوم اور فاطمہؓ نے نہایت مشکل حالات کا سامنا کیا اور مثالی بیٹی کا کردار اداکیا۔
سیدہ عائشہؓ نے اللہ کے رسولؐ سے اتنا علم سیکھا کہ خود علم کا سمندر بن گئیں۔
سیدہ ام سلمہؓ نے حدیبیہ کے موقع پر حکمت و دانائی سے بھرپور مشورہ دیا۔
سیدہ ام سلیمؓ اور ام عمارہؓ نے احد و حنین کی جنگوں میں اس وقت ثابت قدمی دکھائی جب بہت سے مردوں کے قدم اکھڑ گئے۔
سیدہ خنساءؓ نے اپنے چاروں بیٹے راہِ خدا میں قربان کیے اور اللہ کا شکر ادا کیا۔
سیدہ اسماءؓ نے اپنے بیٹے عبداللہ بن زبیرؓ کی اس وقت ہمت بڑھائی، جب دشمنوں نے ان کو چاروں طرف سے گھیر لیا تھا۔
یہ چند مثالیں ہیں۔ پھر اس کے بعد کی تاریخ میں بھی شان دار نمونوں کی کمی نہیں۔ دورِ حاضر میں بھی کچھ مومن عورتوں نے عظیم کارنامے انجام دیے۔ دیگر باہمت عورتوں کے تذکرے بھی اپنے اندر سیکھنے کا سبق اور حوصلے بڑھانے کا سامان رکھتے ہیں۔ ان تمام اچھے نمونوں کا مطالعہ کرتے رہنا چاہیے۔ مجلسوں میں ان کا تذکرہ بھی کرنا چاہیے۔ عورتوں کو اچھا خاصا حوصلہ بہادر اور بلند ہمت عورتوں کے واقعات سے ملتا ہے۔
عبادت کو سب سے بڑا شوق بنالیں
ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ کو راضی کرنے کی فکر جس طرح مردوں کو بے تاب رکھے، اسی طرح عورتوں کو بھی بے تاب رکھے اور انھیں زیادہ سے زیادہ عبادت پر اکساتی رہے۔اللہ کے رسولؐ کی تربیت سے جن عورتوں نے فیض حاصل کیا، انھیں ذکر و عبادت میں بہت زیادہ لطف آتا تھا۔ ’’اللہ کا بہت زیادہ ذکر کرنے والے مرد اور ذکر کرنے والی عورتیں‘‘۔ (الاحزاب: 35) کے الفاظ سے ان کی بہترین عکاسی ہوتی ہے۔
سیدہ عائشہؓ کے بھتیجے قاسم بن محمد کہتے ہیں کہ میں جب صبح گھر سے نکلتا تو سب سے پہلے عائشہؓ کے گھر جاتا اور انھیں سلام کرتا۔ ایک دن صبح کے وقت وہاں پہنچا تو دیکھا کہ وہ کھڑی نماز پڑھ رہی ہیں، قرآن کی ایک آیت بار بار دہرارہی ہیں، رو رہی ہیں اور دعا ئیں مانگ رہی ہیں۔ میں دیر تک کھڑا رہا، یہاں تک کہ کھڑے کھڑے اکتا گیا، تو اپنی ایک ضرورت پوری کرنے بازار کی طرف چلا گیا، کافی دیر بعد وہاں سے آیا، تو دیکھا کہ وہ ویسی ہی نماز میں کھڑی رو رہی ہیں۔ (صفۃ الصفوۃ)
پرہیزگاری میں نمونہ بن جائیں
عورت اگر حرام مال سے بچنے کا پختہ ارادہ کرلے، تو گھر، خاندان اور سماج کی بہت سی برائیوں کا خاتمہ ہوجائے۔
امام احمد بن حنبلؒ کے پاس ایک خاتون آئیں اور مسئلہ دریافت کیا، کہا: سرکاری مشعل کی روشنی ہماری چھت تک آتی ہے، ہم رات میں اْسی کی روشنی میں اپنی چھت پر سوت کاتنے کا کام کرتے ہیں۔ کیا ہمارے لیے اْس روشنی سے یہ فائدہ اٹھانا درست ہے؟ امام احمد نے پوچھا: اللہ آپ کو سلامت رکھیں آپ کون ہیں؟ انھوں نے کہا : میں بشر حافیؒ (مشہور پرہیزگار بزرگ) کی بہن ہوں۔ امام احمد روپڑے اور کہا: آپ کے گھر سے تو پرہیزگاری کی سچی شعاعیں نکلتی ہیں، آپ اْس سرکاری مشعل کی روشنی میں سوت نہ کاتیں۔ (الرسالۃ القشیریۃ)
پرہیزگاری یہ نہیں ہے کہ انسان دولت کمانے کی کوشش نہیں کرے۔ پرہیزگاری یہ ہے کہ حلال مال کمانے کی کوشش کرے۔ بشر حافیؒ کی بہن سوت کاتنے کا کام کرتی تھیں، تاہم اس فکر کے ساتھ کہ ان کے مال میں حرام چیز کی کوئی آمیزش نہ ہوجائے۔
مسابقت کا جذبہ سدا جوان رہے
دنیا داری اور دین داری دونوں مسابقت مانگتی ہیں۔ دنیا داروں کی مسابقت دنیا کے لیے ہوتی ہے اور دین داروں کی مسابقت آخرت کے لیے ہوتی ہے۔ آخرت کی کام یابی آخرت والی مسابقت مانگتی ہے۔
قرآن مجید میں ایمان والو ں کو ترغیب دی گئی ہے کہ وہ اللہ کی بے حد وسیع وعریض جنت کی طرف دوڑ لگائیں۔ دوڑ اور مسابقت والی یہ زندگی مومن مردوں کو بھی گزارنی چاہیے اور مومن عورتوں کو بھی۔ ہمیں اسلام کی روشن تاریخ میں ایسی بہت سی خواتین ملتی ہیں جن کے اوپر مسابقت کی یہ دھن سوار تھی۔

سیدہ نفیسہ کے بارے میں ان کی بھتیجی زینب بیان کرتی ہیں: میں نے اپنی پھوپھی سیدہ نفیسہ کی چالیس سال تک خدمت کی، میں نے انھیں رات میں سوتے ہوئے اور دن میں بغیر روزے کے نہیں پایا، سوائے عید اور تشریق کے دنوں کے۔ میں نے ان سے کہا: آپ اپنے نفس کے ساتھ ذرا نرمی نہیں کرتیں، انھوں نے کہا: میں اپنے نفس کے ساتھ نرمی کیسے کروں، میرے سامنے ایسی بڑی رکاوٹیں ہیں جنھیں وہی پار کرسکتے ہیں جو جیتنے کا تہیہ کرچکے ہوں۔
خالد وراق کہتے ہیں: میرے پاس ایک لونڈی تھی، وہ راہ خدا میں بہت محنت کرتی تھی، ایک دن میں نے اسے بتایا کہ اللہ بندوں پر بہت مہربان ہوتا ہے اور وہ ان کے معمولی اعمال کو بھی قبولیت عطا کرتا ہے۔ وہ رونے لگی پھر اس نے کہا: خالد، میں تو اللہ سے اتنی بڑی امید لگائے ہوئی ہوں کہ اگر پہاڑوں سے انھیں اٹھانے کو کہا جائے تو وہ اٹھانے کی ہمت نہ کرسکیں، جس طرح وہ امانت اٹھانے کی تاب نہیں لاسکے۔ اور میں یہ بھی جانتی ہوں کہ اللہ کے کرم میں ہر گناہ گار کے لیے پناہ ہے۔ لیکن میں مسابقت کی حسرت کا کیا کروں۔ خالد نے کہا: مسابقت کی حسرت کیا ہوتی ہے؟ اس نے کہا: حشر کے دن جب قبر سے سب کچھ نکال باہر کیا جائے گا اور نیکو کار بہترین اعمال کی سواری سے جنت کے دروازے کی طرف تیز رواں ہوں گے۔ اس دن کوتاہ رہ جانے والوں کی حسرت کا کیا عالم ہوگا۔ (صفۃ الصفوۃ)
ممکن ہے ان حکایتوں میں مبالغہ محسوس ہو، لیکن ان میں جس فکرمندی کا اظہار کیا گیا ہے وہ ہر خاتون کے دل میں ضرور بسنی چاہیے۔ جیت اور مسابقت کی فکر ہی زندگی کو اعمال سے معمور کرنے کا ذریعہ بنے گی۔ ورنہ غفلت تو دیمک کی طرح زندگی کے تمام اوراق چاٹ جاتی ہے، ان پر نیکیاں رقم کرنے کا موقع ہی نہیں دیتی ہے۔
شوق کو محدود نہ کریں
آپ لڑکی ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ کا شوق گھر کی چہار دیواری میں سمٹا رہے اور کوئی بڑی امنگ دل میں کروٹ نہ لے۔ اللہ کے رسولؐ نے جن مسلم خواتین کی تربیت کی، ان کے دل میں تو ایسے ایسے شوق پیدا ہوتے کہ عقل حیران ہوجائے۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے اللہ کے رسولؐ نے خواب دیکھا کہ آپ کی امت کے کچھ لوگ سمندر کے دوش پر سوار اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے رواں دواں ہیں، آپ نے اپنے خواب کا ذکر کیا، اسے سن کر صحابیہ ام حرامؓ کے دل میں شوق نے انگڑائی لی، انھوں نے بے تابی سے کہا: اللہ کے رسول میرے لیے دعا فرما دیجیے، میں بھی اس لشکر میں شامل ہوجاؤں، اللہ کے رسولؐ نے دعا فرمادی اور ام حرامؓ کو آخر کار سمندری لشکر میں شامل ہونے کا موقع مل گیا۔ (صحیح مسلم)
یاد رہے کہ اس زمانے میں عربوں کے یہاں جنگ کی خاطر سمندری سفر کو سب سے زیادہ پْر خطر مہم سمجھا جاتا تھا۔ کسی عورت کا ایسی پْرخطر مہم کی تمنا کرنا بتاتا ہے کہ عورت کے دل میں بھی بہت بڑے ارادوں کے لیے جگہ ہوتی ہے۔ دل کو موہ لینے والی بات یہ بھی ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے یہ نہیں کہا کہ ایسے شوق عورتوں کو زیب نہیں دیتے، بلکہ ان کے شوق کی تکمیل کے لیے دعا کی۔