مزید خبریں

کراچی میں بلدیاتی انتخابات کے التواء کی وجہ جماعت اسلامی کی مقبولیت ہے

کراچی (رپورٹ: منیر عقیل انصاری) کراچی میں بلدیاتی انتخابات کے التوا کی وجہ جماعت اسلامی کی مقبولیت ہے‘ لسانی تعصب، کرپشن اور اختیارات کی منتقلی کی وجہ سے پیپلزپارٹی منتخب مقامی حکومت کا قیام نہیں چاہتی‘ پی ٹی آئی، ایم کیوایم، پی پی کو معلوم ہے کہ عوام انہیں ووٹ نہیں دیںگے‘ کراچی کے 7 اضلاع میں کہیں بھی سیلاب نہیں۔ ان خیالات کااظہار جامعہ کراچی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات عامہ میں 34 برس سے زاید تدریسی خدمات سرانجام دینے والی سابق چیئرپرسن پروفیسر ڈاکٹر طلعت عائشہ وزارت، پلڈاٹ کے صدر احمد بلال محبوب، تحریکِ انصاف کی رکن سندھ اسمبلی سدرہ عمران، پنجاب یونیورسٹی شعبہ سیاسیات کے لوکل سیلف گورنمنٹ اسٹڈیز کے استاد محمد زاہد اسلام، کراچی غریب آباد کے سابق کونسلر اور شعبہ طب سے وابستہ معروف ماہر ڈاکٹر عظمت اللہ شریف، علما یونیورسٹی کے شعبہ میڈیا اینڈ ڈیزائن فیکلٹی کی سربراہ پروفیسر ڈاکٹر یاسمین سلطانہ فاروقی، غیر سرکاری تنظیم شعور فاؤنڈیشن فار ایجوکیشن اینڈ اویئرنیس اسلام آباد کے صوبائی کوآرڈینٹر توفیق احمد وسان اور کونسل فار پریکٹسپٹری ڈیولپمنٹ اور اشتراکی ترقی کونسل کی بانی و چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر بلقیس رحمان نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’کراچی میں بلدیاتی انتخابات کے التوا کا اصل سبب کیا ہے؟ ڈاکٹر طلعت عائشہ وزارت نے کہا کہ کراچی میں بلدیاتی انتخابات کے التوا کا اصل سبب عوام کا غم وغصہ ہے‘ صورتحال یہ ہے کہ جو عوام کے مسائل کے حل کے لیے بات کرے گا‘ ان کے مسائل کو حل کرے گا‘ ان کو ہی عوام منتخب کریں گے‘تحریک انصاف، ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی سمیت دیگر جماعتوں کو بڑی حد تک اس بات کا احساس ہوچکا ہے کہ اب ہم عوام کے دلوں سے نکل چکے ہیں اور ہماری کرپشن کھل کر ان کے سامنے آگئی ہے‘ اب عوام ہمیں نہیں منتخب کرنے والے‘ جماعت اسلامی مسائل کو حل کرنے والی نمبر ون جماعت بن گئی ہے‘ مجھے امید بھی ہے کہ بلدیاتی انتخابات میں ان شاء اللہ جماعت اسلامی بھاری اکثریت سے منتخب ہوگی‘ تمام پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کے تبصرے دیکھ لیں‘ اس میں بھی میئر کے لیے جماعت اسلامی کراچی کے امیر کا نام سامنے آرہا ہے‘ اس صورتحال میں موجودہ حکمران جماعتوں کی کرپشن اور ان کے تمام اختیارات کدھر جائیں گے جس کی وجہ سے کراچی کا بیڑا غرق کیا جا رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ عوامی مسائل کے حل کے لیے جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن کا کردار بہت آگے آیا ہے جس طرح جماعت اسلامی کے سابق میئرز نے اس شہر کی ترقی اور خدمت کر کے لوگو ں کو بتایا ہے کہ خدمت اس طرح ہوتی ہے‘ ویسے ہی حافظ نعیم الرحمن کراچی کی آواز بنے ہیں‘ ہر مسئلے کو حکام بالا تک پہنچایا اور حل کرایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی سمیت پورے سندھ میں جو سیلابی صورتحال پیدا ہوئی ہے‘ اس میں جس قدر جماعت اسلامی کے رضا کاروں نے عوام کی خدمت کی ہے‘ اتنی کس اور نے نہیں کی ‘ عوام میںجماعت اسلامی کی پذیرائی کو دیکھتے ہوئے کراچی میں بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے جا رہے ہیں‘ اللہ کرے کراچی میں جلد از جلد بلدیاتی انتخابات ہوں تاکہ شہر تعمیر و ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکے۔احمد بلال محبوب نے کہا کہ میرا خیال تو یہ ہے کہ کیونکہ سندھ حکومت کے اہلکار اور ہماری سیکورٹی فورسز کی پوری توجہ اس وقت بارشوں اور سیلاب سے ہونے والی وسیع تر تباہ کاریوں سے نمٹنے پر مرکوز ہے اس لیے کراچی کی مقامی حکومتوں کے انتخابات کے لیے درکار انتظامی اور سیکورٹی اہلکاروں کی فراہمی ایک بڑا مسئلہ ہے‘ یہ درست ہے کہ کوئی بھی صوبائی حکومت خصوصاً حکومتِ سندھ مقامی حکومتوں کے انتخابات کرانے کے لیے آسانی سے آمادہ نہیں ہوتی اور ان کو ملتوی کرنے کے کسی بھی امکان کو خوش آمدید کہنے کے لیے ہر وقت تیار رہتی ہیں لیکن اس وقت جو انتہائی غیر معمولی صورت حال ہمیں درپیش ہے اس کے پیشِ نظر کراچی کے مقامی انتخابات کے التوا کا جواز پیش کیا جا سکتا ہے۔محمد زاہد اسلام نے کہا کہ کراچی میں بلدیاتی انتخابات کے التوا کا اصل سبب بنیادی طور پر صوبائی حکومت کی عدم خواہش ہے کہ منتخب اور با اختیار مقامی حکومت قائم ہو‘ عدالت عظمیٰ نے بلدیاتی انتخابات کرانے کا حکم بھی دیا ہے اور پھر سیلاب کی تباہ کاریاں بھی التوا کا جواز بن گئی ہیں‘ در اصل اگر مقامی حکومت آئین کے مطابق قائم ہوتی ہے تو صوبائی حکومت کا کنٹرول کسی حد تک کم ہو جاتا ہے جو اس کو قبول نہیں ہے‘ ایک حد تک یہ لسانی تعصب بھی ہے جو التوا کا سبب بنتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ لوکل گورنمنٹ سسٹم میں عام شہریوں کی بھرپور نمائندگی کو یقینی بنائے بغیر روزمرہ کے عوامی مسائل حل نہیں ہوسکتے۔ ڈاکٹر عظمت اللہ شریف نے کہا کہ کراچی کے انفرااسٹرکچر کو بحال کرنے کے لیے بلدیاتی انتخابات ناگزیر ہوگئے ہیں‘کراچی کی تاریخ بتاتی ہے کہ اسے ہمیشہ منتخب بلدیاتی نمائندگان نے ہی سنوارا ہے‘ سابق میئر عبدالستار افغانی کے دور میں کراچی ترقی یافتہ ہونا شروع ہوا تھا‘ 1987ء میں سابق میئر کراچی ڈاکٹر فاروق ستار کے دور میں بھی کراچی کی ترقی کا پہیہ کچھ چلا تھا ‘ 1990ء سے 2001ء تک کا دور کراچی کے لیے اچھا ثابت نہیں ہوا تھا کیونکہ بلدیاتی قیادت کی عدم موجودگی میں بلدیاتی افسران کراچی کو مسائل سے نکالنے کے بجائے مسائل میں مبتلا کرنے کا سبب بنے‘ سابق صدر جنرل پرویز مشرف شہری حکومت کا نظام لائے‘ اگست 2001ء سے فروری 2010ء تک کراچی منتخب نمائندگان کے دور میں دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہوا‘ سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان کے دور کو آج بھی یاد کیا جاتا ہے‘ 2016ء سے 2020ء تک منتخب بلدیاتی نمائندگان نے اختیارات کی کمی کا رونا رویا‘ منتخب بلدیاتی نمائندگان کو گئے 2 سال گزر چکے ہیں‘ ان 2 سال میں کراچی کا انفرااسٹرکچر کس قدر خراب ہو چکا ہے‘ جو کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے‘ بلدیاتی منتخب نمائندگان کسی بھی پارٹی سے ہوں‘ عوامی دباؤ ہی بلدیاتی مسائل حل کرواتا ہے‘ سیاسی جماعتوں کو یک زبان ہوکر بلدیاتی انتخابات کے انعقاد پر زور دینا چاہیے۔ ڈاکٹر یاسمین سلطانہ فاروقی نے کہا کہ کراچی میں بلدیاتی انتخابات کرانے میں سندھ حکومت ہچکچاہٹ کا شکار نظر آتی ہے‘ کبھی کچھ ضلعوں کو آفت زدہ کہہ کر ٹالاجاتا ہے جبکہ باقی جگہوں پر حالات اب بہتر ہیں اور اگست کے آخر سے بارش کی پیش گوئی بھی نہیں ہے جب تک انتخابات نہیں کروائے جائیں گے‘ اس وقت تک مسائل کا حل ہونا مشکل ہے‘ کراچی شہر کھنڈر کا منظر پیش کر رہا ہے‘ کوئی سڑک سلامت نہیں ہے‘ جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں‘ کوئی محکمہ ٹھیک سے کام نہیں کر رہا، اب انتخابات ملتوی کردیے گئے ہیں‘ بلدیاتی انتخابات کے التوا کے بہت سے اسباب ہیں۔ سب سے پہلے تو موسم، بارشوں اور سیلاب کا بہانہ بنایا جا رہا ہے کیونکہ کراچی والوں کی نظریں جماعت اسلامی اور خاص طور پر حافظ نعیم الرحمن پر لگی ہوئی ہیں اور حقیقت یہی ہے کہ جماعت اسلامی بہت فعال بھی ہے اور انہوں نے عوام کو بھی اپنے کام سے اور اپنی سرگرمیوں سے اعتماد میں لیا ہوا ہے‘ خاص طور پر حالیہ بارشوں اور سیلاب میں ’’الخدمت‘‘ نے جس طرح عوام کی مدد کی اور لوگوں کی جان بچائی اس نے لوگوں کے دل میں گھر کرلیا ہے‘ حافظ نعیم الرحمن بہت دیانتداری کے ساتھ کام کر رہے ہیں اور عوام کو ساتھ لے کر چل رہے ہیں‘ گورنمنٹ کو خطرہ یہ ہے کہ جماعت اسلامی الیکشن جیت جائے گی۔ توفیق احمد وسا ن نے کہا کہ سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں مسلسل تاخیر کے سبب بنیادی مسائل شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں‘حالیہ تاخیر کی وجہ بارشوں کی پیشگوئی کے سبب کی گئی ہے لیکن اگر بلدیاتی انتخابات کرانے کے حوالے سے صوبائی حکومت کے رویے کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ سرکار بلدیاتی انتخابات کرانے میں سنجیدہ نہیں ہے اور تمام تر وسائل وزارت اعلیٰ یا وزیر بلدیات کے پاس رکھنے کو ترجیح دی جا رہی ہے جس کی مثال صوبائی مالیاتی کمیشن کا اجرا نہ ہونا ہے‘ 2007ء میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم نے صوبائی مالیاتی کمیشن کا اجرا کیا تھا‘ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اس بات پر متفق ہوں کہ چاہے کسی کی بھی حکومت قائم ہو وہ بروقت بلدیاتی انتخابات کرانے کے پابند ہوں گے۔ ڈاکٹر بلقیس رحمن نے کہا کہ کراچی کے7 ڈسٹرکٹ میں کہیں بھی سیلاب نہیں ہے‘ صرف سندھ حکومت کو نفرت اور عداوت کے سوا کچھ نہیں دکھتا ہے‘ کسی بھی معاشرے میں سیاسی و جمہوری استحکام کے لیے مقامی حکومتوں کا ہونا ناگزیر ہوتا ہے‘ لوگوں کو مقامی انتظام و انصرام میں شامل کیے بغیر کوئی بھی معاشرہ سیاسی و معاشرتی لحاظ سے جدت پسند نہیں کہلایا جا سکتا اور نہ ہی بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے‘ بدقسمتی سے یہ انتخابات کسی نہ کسی بہانے تاخیر کا شکار ہوتے ہیں اور عدالتوں کی مداخلت کے بعد ہی منعقد ہوتے ہیں‘ دنیا بھر میں لوگوں کے مسائل ان کی دہلیز پر حل کرنے کے لیے سب سے موثر کردار مقامی حکومتوں کا ہوتا ہے۔