مزید خبریں

عظیم مقدمے کی مختصر رُوداد”

دینِ اسلام میں داخل ہونے کے لیے دو چیزوں کا اقرار ضروری ہے: (۱) اللہ تعالیٰ کی وحدانیت (۲) نبی کریمﷺ کی رسالت۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ایمان کا تقاضا ہے، اگر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و اطاعت زندگی سے نکال دی جائے تو پھر مسلمان مسلمان ہی نہ رہے۔ اس طرح اگر کسی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین نہیں مانا یا اس میں شک کیا تو وہ اسلام سے خارج ہوگیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگیوں کا ہم مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد جب کئی لوگوں نے نبوت کا دعوی کیا تو اُمت یک جان ہوکر اُن کے خلاف کھڑی ہوئی۔ چوں کہ یہ مسئلہ نہایت اہمیت کا حامل ہے، اس لیے کبھی اہلِ ایمان نے کسی بھی موقع پر منکرینِ ختم نبوت کے خلاف صف آرا ہونے میں تردد نہیں کیا۔ اپنی جان، اپنا مال اس کارِ خیرکثیر میں بلاکسی خوف وخطر صرف کیا۔ علامہ اقبال انہی عاشقانِ رسولﷺ کی مدح کرتے ہوئے کہاتھا:
کی محمد (ﷺ) سے وفا تُونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح وقلم تیرے ہیں
انہیں کچھ خوش نصیب لوگوں میں مولانا الہٰی بخش اور ان کی دختر عائشہ شامل ہیں۔ ان کی زندگی کے حالات سن کر عشق رسول کی پرانی مثالیں زندہ ہوتی نظر آتی ہیں۔ ہم نے دنیا میں کئی مقدمات دیکھے ہوں گے چند لوگ تو حق پر ہوتے ہوئے بھی ہار جاتے ہیں، اور کچھ لوگ طاقت کے بل بوتے پر دنیاوی جیت کے مزے حاصل کر لیتے ہیں۔ لیکن آج ہم ایسے آفاقی مقدمہ کی تفصیلی روداد پڑھیں گے جو اپنی نوعیت کا ایک الگ ہی مقدمہ تھا۔ اس میں فقط ایک مسلمان بہن اپنی عفت کو جیتنے میں کامیاب نہیں ہوتی، بلکہ دیگر اسلامی بہنوں کے لیے تاقیامت ایک مثال چھوڑ جاتی ہے۔ اس عظیم مقدمہ کو “مقدمۂ بہاولپور” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس مقدمہ کو سن کر نہ صرف انسان کا ایمان تازہ ہوتا ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور آپ کی ناموس کی حفاظت کا جذبہ بھی پیدا ہوتا ہے۔
بہاولپور” میں دو کردار بہت اہم ہیں: ایک مولانا الہی بخش رحمہ اللہ صاحب اور دوسری ان کی بیٹی عائشہ۔ خلاصہ مقدمہ یہ ہے کہ1926ء سے لے کر 1935ء کی بات ہے کہ جب متحدہ ہندوستان میں انگریزوں کی حکومت ہوا کرتی تھی۔ مولانا الہٰی بخش صاحب شادی شدہ اور خوددار آدمی تھے۔ اللہ تعالیٰ نے شادی کے بعد اولاد سے بھی خوب نوازا۔ ایک دن تقدیرِ الہٰی سے آپ کی اہلیہ کا انتقال ہوگیا۔ آپ کے ایک استاذ نے آپ کا نکاحِ ثانی اپنی بیٹی سے کردیا، ساتھ میں آپ کی بیٹی عائشہ الہٰی بخش اپنے بیٹے کے لیے منتخب کرلی۔ آپ کی بیٹی چھوٹی تھیں، لہٰذا طے یہ ہوا کہ رخصتی بعد میں کی جائے گی۔ سارے معاملات خیر وعافیت سے ہوگئے۔ بعد میں آپ کے ان استاذ سسر کا بھی انتقال ہوگیا۔ باپ کے انتقال کے بعد ان کا وہ بیٹا جس کا نکاح عائشہ الہٰی بخش سے ہوا تھا، غلط ماحول میں چلا گیا اور العیاذ باللہ مرزائیت اختیار کرلی اور کسی کو پتا نہیں چلنے دیا۔ پھر اس نے مولانا الہٰی بخش صاحب سے جلد رخصتی مانگ لی۔ مولانا نے کہا کہ ابھی رخصتی نہیں کرسکتے، یہ بات طے ہوئی ہے۔ لیکن اس نے اپنا اصرار بڑھا دیا۔ آخر یہ عقدہ کھلا کہ لڑکا تو مرزائی ہوچکا ہے، اب تو رشتہ بتقضائے قانونِ اسلام ختم ہوچکا ہے۔ مولانا مرحوم نے صریح انکار کردیا کہ وہ کسی قادیانی مرزائی کو اپنی بیٹی نہیں دیں گے۔
کوئی مرزائی کسی مسلمان سے اپنے لیے “نہ” سنے، وہ اسے اپنی توہین سمجھتا ہے۔
چناں چہ مرزائیوں نے اپنی طاقت کے ساتھ سرفروشِ حق کا مقابلہ کرنے کی ٹھان لی اور عدالتوں میں مولانا الہی بخش صاحب کے خلاف مختلف کیسز دائر کردیے۔
مولانا صاحب مسکین اور مولوی آدمی، نہ تعلقات، نہ پیسہ، نہ ہی سودے بازی کے فن سے آشنا۔ سادے سے حلیے میں بیٹی کے ساتھ میلوں کا سفر طے کرکے عدالتوں کے چکر کاٹتے رہے، بعض دفعہ تو ایسا ہوتا کہ میلوں پیدل چلتے اور کبھی دو دو دن تک پیدل چلنا پڑتا تھا۔
صرف ناموس رسالت کی حفاظت کی خاطر سفر کرتے اور جانے کے لیے کرایہ تک نہ ہوتا تھا۔ اس بے بسی کی حالت میں بھی یہ دونوں (باپ، بیٹی) حالات سے نبرد آزما ہوتے ۔ پیشیاں ہوتی رہیں، دلائل کے دھویں بھی خوب اٹھتے رہے، مگر مولانا اور اُن کی حور کردار بیٹی کے حق میں نتائج برآمد نہیں ہوئے۔
مولانا کی گرفتاری کے آرڈر جاری ہوتے رہے اور اللہ ستّار ان پر اپنی صفتِ ستاری قائم رکھی۔ملتان سے ان کی گرفتاری کے لیے بیلف جاتے۔اور اکثر لوگ کی آمد پر مولانا صاحب اور ان کی بیٹی بھاگم بھاگ کبھی ادھر کبھی ادھر چھپتے چھپاتے پھرتے باوجود اس کے کہ وہ بے گناہ تھے *منکرین ختم نبوت کو اپنے پیسوں سے بڑا اور فخر تھا اور اپنے تعلقات پر بھی اگر آج کے دور میں بھی ہم دیکھیں تو اس طبقے کی یہی صورت حال ہمیں نظر آتی ہے *بہرحال جیسا کہ قرآن مجید میں بھی فرمایا گیا ہے کہ” وہ اپنی چالیں چلتے ہیں اور اللہ رب العزت اپنی تدبیر کرتا ہے “وہ اپنی چالیں چلتے رہے اور اللہ اپنی تدبیر کرتا رہا اور پھر ایک دفعہ وہاں کے نواب کا گزر راستے سے ہوا تو مولانا نے اپنی عرضی ان کے آگے پیش کی وہاں کے نواب کی حکومت بھی انگریزوں کےزیردست تھی۔ ان کے فرمان کے مطابق
۔ آخری درخواست جوڈیشل کمیشن میں گئی اور یہی وہ موقع تھا جہاں حق نے اپنی رعنائی کے ساتھ ظاہر ہونا تھا اور باطل نے پاش پاش۔ جب اس مقدمے کی کارروائی شروع ہوئی تو مولانا الہٰی بخش صاحب اپنے ساتھیوں مولانا غلام محمد گھوٹوی، مولانا عبدالرحمن کے پاس جامعہ عباسیہ گئے۔ بہت سوچ بچار ہوا، دار العلوم دیوبند خطوط روانہ کیے گئے، بھرپور مقابلہ کرنے کی بات منظور ہوئی۔ جو شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی نہیں مانتا وہ مسلمان نہیں رہتا، پھر کیسے کسی غیر مسلم کو اپنی بیٹی دے دیں۔ آنے والی نسلوں کا معاملہ تھا۔
مولانا کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ تھا۔ جب دعاؤں نے عرش کو لرزایا تو فرش پر انصاف کی چکی چل پڑی اور اتنا باریک پِیس ڈالا کہ مرزائیوں کو منہ چھپانے کی جگہ نہ ملی۔ وہ سمجھنے لگ گئے کہ مقدمہ ہاتھ سے جا رہا ہے۔ اور وہ یہ بھی جانتے تھے کہ اگر یہ مقدمہ ہار گئے تو یہ کالک مزید اور کالکوں کو کھینچتی جائے گی۔ چناں چہ انہوں نے مقدمہ ختم کرنے کے لیے* مولانا کو پیسوں کی پیشکش کی، زمینوں کی پیشکش کی، لیکن مولانا نے ان پیسوں کو حقارت سے ٹھکرا دیا۔ اب خود ہی سوچ اور اندازہ لگائیں کہ وہ غریب لوگ کہ جن کے پاس عدالت تک* پہنچنے کے لئے کرایہ تک نہ ہوتا تھا انہوں نے لمبی چوڑی رقم ناموس رسالت پر قربان کر دی۔
آخر میں مرزائیوں نے یہ تک کہا کہ ہم طلاق دلواتے ہیں، بس مقدمہ واپس لے لیں لیکن مولانا نے ایسا نہیں کیا۔
جب انہیں اس وار سے بھی رسوائی ہوئی تو انہوں نے مولانا کے برادرِ نسبتی اور داماد کو جو مرزائی ہوگیا تھا، اسے زہر دے کر مار دیا۔
موجودہ مرزائی اگر اسی بات پر غور کرلیں تو شاید فوراً توبہ کرنے کی توفیق نصیب ہو جائے۔
جب زہر دے کر مقدمہ بند کرنے کی درخواست کی تو اُن کی وہ درخواست مسترد ہوگئی اور پھر الحمدللہ! مقدمہ کا فیصلہ مولانا الہی بخش رحمتہ اللہ علیہ اوراُن کی جرأت مندی بیٹی عائشہ کے حق میں ہوا۔ باطل مٹ گیا اور حق ثابت ہوگیا ۔
جیسا کہ مولانا صاحب نے عبدالرزاق کے مسلسل اصرار اور کچھ شک و شبے کی بنیاد پر تحقیقات کی تو معلوم ہوا کہ عبدالرزاق قادیانیوں کے ساتھ مل چکا ہے تو در اصل مسئلہ آجکل کے حالات کے تناظر میں بھی یہی ہے کہ اپنے ارد گرد نظر رکھیں کیوں کہ ہم نہیں جانتے کہ مسلمانوں کے بھیس میں ایک قادیانی کہیں نہ کہیں موجود ہوتے ہیں اور خود کو مسلمان کہہ کر ہمیں دھوکے میں ڈال دیتے ہیں مولانا الہی بخش رحمہ اللہ میں کھرے اور کھوٹے کی پہچان بھی کی اور حق کو ثابت کرنے کے ساتھ جمے بھی رہے ۔
اگر ہم اس مقدمے پر غور کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ اللہ رب العزت کے پیارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کی حفاظت کے لیے ان کمزور اور ناتواں انسانوں نے کتنی ہمت اور حوصلے سے مقابلہ کیا۔
شاید اگر بات صرف ان کی حد تک ہوتی تو وہ حوصلہ ہار جاتے لیکن اگر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک تھی جن کے لئے غلاموں کی جان تک ‏فدا ہوتی ہے۔
ہم نے یہاں پر سارے مقدمہ کا خلاصہ رکھا ہے، اصل کردار اور اس کے حقائق کو پڑھے بغیر یہ خلاصہ بے معنیٰ ہے۔ اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائے عبدالرحمن باوا صاحب زید مجدہ کو جنہوں نے بڑی عرق ریزی سے دس سالہ مقدمہ کی کارروائی کو تین جلدوں میں شائع کیا۔

*بے شک عائشہ الہی بخش ایک بے مثال خاتون تھیں جنہوں نے اپنی تمام مسلمان بہنوں کے لئے ایک مثال چھوڑی کہ اللہ، نبیﷺ کی اطاعت میں نامناسب رشتوں کو ترجیع دینے کے بجائے صحیح اور جائز اور اسلامی اقدار والے لوگوں کو ترجیع دیں۔ دین سے ناواقفیت کی وجہ سے اپنی پسند کی خاطر اپنے دین کو گنوانا، والدین کی عزت داؤ پر لگانا مسلمان کو زیب نہیں دیتا ۔