مزید خبریں

اسٹیبلشمنٹ کے زیر سایہ تربیت پانے کی وجہ سے سیاسی جماعتوں کا رویہ آمرانہ ہے

کراچی (رپورٹ :خالد مخدومی) اسٹیبلشمنٹ کے زیر سایہ تربیت پانے کی وجہ سے سیاسی جماعتوں کا رویہ آمرانہ ہے‘ ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں قائدین اپنے بچوںکو آگے بڑھانے اور پارٹی پر قبضہ رکھنا چاہتے ہیں‘ پی ٹی آئی میں عمران خان کی پسند، ناپسند پر عہدیداران کا تعین ہوتا ہے‘ تیسری دنیا کے عوام سیاسی جماعتوں کے مقاصد سے زیادہ لیڈر کی شخصیت سے جذباتی وابستگی رکھتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار ممتاز صحافی رفعت اللہ اورکزئی، تجزیہ نگار انوار حیدر اور جامعہ کراچی شعبہ سیاسیات کی چیئرپرسن پروفیسر ڈاکٹر ثمر سلطانہ نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’نواز لیگ، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف میں شخصی آمریت کیوں ہے؟‘‘ ڈاکٹر ثمر سلطانہ نے کہا کہ دن رات جمہوریت پسندی اور اس کے فروغ کا راگ الاپنے والی سیاسی جماعتوں کے نسل در نسل چلنے والے قائدین خود کو جمہوریت اور اپنے خاندان کی بقا کو جمہوریت کی بقا سمجھتے ہیں‘ انٹرا پارٹی الیکشن کے حوالے سے لولی لنگڑی باڈی بنائی جاتی ہے‘ موروثی سیاستدان سیاسی جماعتوں کو اپنی ذاتی ملکیت کے طور پر چلاتے ہیں‘ مجبوراً چند لوگوں کو رسمی عہدے دیتے ہیں یہ عہدے بھی ان کو دیے جاتے ہیں جو بس خاموشی سے سب دیکھتے سنتے رہیں تاکہ ساری پارٹی چند لوگوں کے گرد گھومتی رہے‘ یہاں فقط چاپلوسی کو اہمیت دی جاتی ہے‘ اہلیت و قابلیت مشکوک قرار پاتی ہے‘ کارکنان کو محض نعرے بازی، جلسوں اور دھرنوں میں خجل خواری اور ووٹ دینے یا دلانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔انوار حید ر نے کہا کہ جمہوریت کا لفظ جمہور سے نکلا ہے جس کا مطلب عوام کی اکثریت اور عوام کی طاقت ہے‘ سابق امریکی صدر ابراہم لنکن کا قول ہے کہ عوام کی حاکمیت، عوام کے ذریعے اور عوام پر ہونی چاہیے‘ یہاں کب عوام کو حق حکمرانی نصیب ہوا ہے جبکہ یہاں ہر 5 سال بعد اربوں روپے لگا کر ایوان زیریں اور ایوان بالا کے لیے نمائندے چنے جاتے ہیں جن کی آئینی ذمے داری صرف قانون سازی ہے‘ قیام پاکستان کے بعد سیاسی اور جمہوری روایات کو فروغ دینے کے لیے دستور ساز اسمبلیوں کو اختیارات دیے گئے لیکن بدقسمتی سے خان ازم، نواب ازم ، وڈیرہ شاہی اور جاگیردارانہ رویے کی وجہ سے مطلوبہ نتائج برآمد نہ ہوسکے چنانچہ سیاسی جماعتیں بہت ہی کمزور رہیں ‘اس لیے فوجی جرنیلوں کو امور مملکت چلانے کے مواقع فراہم ہوئے‘سیاسی جماعتوں میں آمریت ہونے کی سب سے بڑی وجہ موروثی سیاست ہے‘ آپ اگر نواز شریف کو دیکھیں وہ اپنی جگہ اپنی بیٹی کو لانا چاہتے ہیں، جب نواز شریف وزیراعظم تھے تو ان کا بھائی پنجاب کا وزیراعلیٰ تھا‘ اب شہباز شریف سیاست میں اپنے بیٹے حمزہ شہباز کو آگے لانا چاہتے ہیں‘ ایک خاندان پوری پارٹی کی قیادت کر رہا ہے‘ بالکل یہی صورتحال پیپلز پارٹی کی بھی ہے‘ پارٹیاں خاندانی لمیٹڈ کمپنیاں بن چکی ہیں‘ سیاسی جماعتیں قبائل اور ثقافت پر مبنی گروہ دکھائی دیتی ہیں‘ 18ویں آئینی ترمیم کے ذریعے سیاسی جماعتوں نے آئین سے انٹرا پارٹی الیکشن کی متعدد دفعات کو ہی نکلوا دیا ہے‘ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں جمہوریت کے نام پر تماشا لگتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھاکہ قیام پاکستان کے ساتھ ہی پاکستان میں جمہوری سیاسی عمل کے متوازی اسٹیبلشمنٹ بھی اپنا نظام چلاتی رہی،اور اس نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے ذریعے سیاسی جماعتوں میں باقاعدہ جمہوری نظام قائم نہ ہونے دیا۔ رفعت اللہ اورکزئی نے کہا کہ پاکستان میں ہرتھوڑی مدت کے بعد مارشل لا لگائے جاتے رہے جس کے نتیجے میں سیاسی اور جمہوری عمل کو نقصان ہوا‘ جمہور اور جمہوری نظام کی بات کرنے والی سیاسی جماعتوں کو اپنی جماعتوں کے غیر جمہوری رویے پر غور کرنا ہوگا‘ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ا ور تحریک انصاف میں قیادت اِجارہ دارانہ یا آمرانہ ہے‘ اگر تاریخ کا مطالعہ کریں تو پتا چلے گاکہ 1934ء میں جب سندھ بمبئی کا حصہ تھا اس وقت سے سندھ کی سیاست آج تک کم و بیش اسی ڈگر پر چل رہی ہے‘ انہی خاندانوں کی اجارہ داری ہے اور انہی کو منتقل ہوئی‘ پارلیمنٹ کا بہت بڑا حصہ آج تک انہی کے ہاتھ میں ہے‘ یہی حال پنجاب اور بلوچستان کا بھی ہے‘ بہاول پور میں جو لوگ 1906ء میں وزیر اعلیٰ تھے‘ انہی کے خاندان کے پاس آج تک سیاست و اِنتخابات کی اجارہ داری ہے‘ تاجِ برطانیہ کے دور میں ملتان اور ڈیرہ غازی خان میں جو بڑے بڑے خانوادے مسند اقتدار پر فائز تھے‘ آپ کو ان ہی شخصیات کی نسلیں اقتدار پر بیٹھی نظر آئیں گی‘ اس دوران الیکشن ہوتے رہے، حکومتیں بدلتی رہیں، جمہوریت کے نام پر اَدوار بدلتے رہے‘کبھی فوجی اور کبھی سیاسی آمریت آئی‘ مگر اسمبلیاں اور اقتدار ان خانوادوں سے باہر کبھی نہیں گیا ‘بھٹو کا طرز عمل اپنے جاگیردارانہ مزاج اور ایوب خان کے سایہ عاطفت میں سیاسی تربیت پانے کی وجہ سے آمرانہ رہا‘ یہی وجہ ہے کہ ان کے دور میں بھی ان کی پارٹی میں انتخابات کے بجائے نامزدگیوں ہی سے کام چلایا جاتا تھا اور اب تک یہی صورت ہے۔ جہاں تک مسلم لیگ ن کا تعلق ہے تو اس کے قائد میاں نواز شریف بھی ایک فوجی آمر ہی کی دریافت اور پروردہ ہیں تاہم ان کی جماعت میں بھی پارٹی عہدوں پر انتخابات کے بجائے نامزدگیاں ہی ہوتی ہیں‘ تحریک انصاف میں عمران خان کا ون مین شو ہے‘ انتخابات کے بجائے عمران خان کی ذاتی پسند و ناپسند ہی سے عہدیداروںکا تعین ہوتا ہے‘ بڑی سیاسی جماعتوں میں موروثی قیادت کی روایت کا ہونا فطری عمل ہے کیونکہ تیسری دنیا کے ممالک میں عوام سیاسی جماعتوں کے مقاصد اور منشور سے کہیں زیادہ لیڈر کی شخصیت سے جذباتی وابستگی رکھتے ہیں لہٰذا اس کے بعد اس کے جانشین کو آسانی سے قبول کرلیتے ہیں‘ اس کا بہت واضح ثبوت ہمیں اپنے پڑوسی ملک بھارت میں نظر آتا ہے جہاں کانگریس کی سربراہی اب تک پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کے خاندان کے افراد کے ہاتھوں میں ہے‘ بنگلادیش میں بھی ملک کے بانی کی بیٹی کی حکومت ہے‘ بنگلادیشی صدر جنرل ضیا الرحمن کی بیگم خالدہ ضیا بھی سیاست میں اپنے شوہر کے حوالے سے مقبول ہوئیں‘ اسی طرح پیپلز پارٹی میں قیادت کا بھٹو کے بعد ان کی بیوی اور پھر بیٹی کے ہاتھ میں جانا بالکل فطری عمل تھا‘ بے نظیر کے قتل کے بعد آصف زرداری کا پارٹی کو سنبھالنا بھی وقت کا تقاضا تھا‘ سندھ کے عوام شاید آج بھی بھٹو خاندان سے ایسی جذباتی وابستگی رکھتے ہیں‘ پارٹی کی قیادت کا اسی خاندان کے کسی فرد کے پاس ہونا اس جماعت کی سیاسی ضرورت ہے۔