مزید خبریں

سیاسی جماعتیں جمہوریت پسند ہیں نہ اسٹیٹس کو کو چیلنج کرنیکی صلاحیت رکھتی ہیں

کراچی(رپورٹ:حماد حسین) اشرافیہ کا یہ طبقہ سیاسی واثت اور سیاسی خاندانوں کے رشتوں اور باہمی کاروبار کو مزیدمظبوط کر کے اپنی جڑیں اور گہری کردیتے ہیں۔ اشرافیہ کا یہ گٹھ جوڑ سیاسی جماعتوں کو کبھی جمہوری طور پہ آزاد اور میرٹ یافتہ نہیں بننے دیتے۔ نتیجتاً پاکستان میں اصل معنوں میں سیاسی جماعتیں اپنی سیاست میں نہ تو جمہوریت پسند ہیں نہ ہی اسیٹس کو کو چیلنج کرنے کی صلاحیت اور خواہش رکھتی ہیں۔ان خیالات کا اظہارجامعہ کراچی کے شعبہ سیاسیات کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد علی ، جناح یونیورسٹی برائے خواتین کے شعبہ سیاسیات کی چیئرپرسن اسسٹنٹ پروفیسر حنا مہیب اور ڈی ایچ اے صفہ یونیورسٹی کے شعبہ بین القوامی تعلقات عامہ کی پروگرام منیجر سدرہ احمد نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ کیا شخصی آمریت پر قائم جماعتیںملک کو حقیقی جمہوریت دے سکتی ہیں۔جامعہ کراچی کے شعبہ سیاسیات کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد علی کا کہنا تھا کہ حقیقی جمہوریت اور شخصی آمریت ایک دوسرے سے متصادم ہے۔دونوںبیک وقت ساتھ نہیں چل سکتے۔کیونکہ یہ کیسے ممکن ہے کہ آمریت اور مورثی سیاست کیسے قائم رہ سکتی ہے۔وہ سیاسی جماعتیں جو اپنے اندرجمہوریت نہیں لاسکتی تو وہ ملک میں جمہوریت کیسے لائیں گی۔ حقیقی جمہوریت سے مراد ایسا سیاسی نظام ہے جوکہ فرد کے بجائے آئینی ریاستی اور جمہوری اداروں کو مضبوط اور مستحکم کریں۔کسی بھی سیاسی جماعت کی شخصیت یا خاندان کی مورثی آمریت نہ ہو۔تاہم اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ جمہوری نظام میں سیاسی جماعتوں کا اہم کردار ہوتا ہے۔دنیا میں قائم متعدد کامیاب ریاستوں خواہ وہ پارلیمانی ہو یا صدارتی وہان کی سیاسی جماعتوں میں انٹرا پارٹی انتخابات ہوتے ہیں۔اس کی واضح مثال برطانیہ ارو سوئزرلینڈ ہیں۔وہان فرد واحد کو طاقتور بنانے کے بجائے اداروں کو مضبوط اور مستحکم بنایا جارہا ہے۔تاہم بد قسمتی سے جنوبی ایشیا کے چند ممالک بالخصوص پاکستان مٰن چند خاندان اپنے بزروگوں کی قربانیوں کو بنیاد بناکر اقتدار میںآتے ہیں۔ مگر عوام اب اس طریقہ واردات کو سمجھ چکے ہیں۔اب لوگ سیاست دانوں سے اپنے حق کے لئے سوالات پوچھتے ہیں۔ جناح یونیورسٹی برائے خواتین کے شعبہ سیاسیات کی چیئرپرسن اسسٹنٹ پروفیسر حنا محیب کا کہنا تھا کہ بنیادی طور پر جمہوریت نام ہے مختلف افراد کی رائے کے احترام اور اس رائے کے مطابق فیصلے کرنے کا اور تبدیلیاں نظام میں لاگو کرنے کا یہی اصول سیاست میں چلتا ہے اور یہی سیاسی جماعتوں میں نظر بھی آنا چاہیے۔مگر بدقسمتی سے ہمیں جنوبی ایشیا میں تمام مشہور سیاسی جماعتیں شخصیت کے اردگرد گھومتی ہوئی نظر آتی ہیں یہی وجہ ہے کہ جماعت اس کا منشور، پالیسیاں سب ایک شخص کے اردگرد پروان چڑھنے لگتا ہے جس کا آگے جاکر منفی اثر ہی پڑتا ہے۔ یہ سیاسی جماعتیں اپنی تمام تر توانائیاں فرد واحد پر خرچ کرتی ہیں۔ یہ سیاسی جماعتیں ملک کو حقیقی جمہوریت بالکل بھی فراہم نہیں کرسکتی۔ کیونکہ جو جماعت اپنی صفوں میں جمہوریت رائج نہیں کرسکتی۔ اختلاف رائے برداشت نہیں کرسکتی، جو برداشت اور صبر وتحمل کا مظاہرہ نہیں کرسکتی وہ ملک میں حقیقی جمہوریت ، اپوزیشن اور اختلافات کو برداشت بھی نہیں کرسکتی ہیں۔ یہ سیاسی جماعتوں کی جگہ فسادی گروہ بن جاتی ہیں۔ڈی ایچ اے صفہ یونیورسٹی کے شعبہ بین القوامی تعلقات عامہ کی پروگرام منیجر سدرہ احمدکا کہنا تھا کہ اپنی ابتدا سے ہی پاکستان ایک نیم جمہوری ، جاگیر دارانہ سماج رہا ہے جدھر چند طاقتور ، اثر و رسوخ والے خاندانوں اور شخصیات کا اکثریتی آبادی پہ ایک خاص کنٹرول رہا ہے۔ یہ کنٹرول صرف سماجی نوعیت کا نہیں بلکہ معاشی اور سیاسی بھی ہے۔ پاکستان کے عام لوگ ہمیشہ چند خاندانوں یا ان کے حمایت یافتہ شخصیات کو اپنا نجات دہندہ سمجھتے رہے ہیں اور ان کے تیار کردہ بیانیوں کو بلا اعتراض قبول کرتے چلے آ ے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی سیاست ہو یا ریاست، تجارت ہو یا تعلیم، کسی بھی مقام پہ شخصی اثرات کو چیلنج نہیں کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے ایوانوں تک پہنچنے والے اکثر نمائیندے پاکستان کی اکثریت ، یعنی متوسط یا غریب طبقے ، سے تعلق نہیں رکھتے۔ وہ نہ صرف معاشی طور پہ ایک الگ طرز زندگی اور سوچ کے حامل ہیں، بلکہ عام لوگوں سے خود کو منفرد اور برتر سمجھتے ہیں۔ جمہوری نظام ہر ملک کی طرح پاکستان میں بھی سرمایہ دار طبقے کے بل بوتے پہ قائم ہے، ہر بڑا جاگیر دار بڑی صنعتوں اور تجارتی منصوبوں کا ملک ہے لہذا ان کے ہوتے ہوئے عام لوگوں کی پہنچ، ان کی سوچ ، ان کے مسائل اور ان کی آواز کا سیاسی جماعتوں میں واضح ہونا نہایت مشکل ہے۔ شدید قسم کے طبقاتی فرق کے ساتھ سیاسی جماعت اور اس کے لیڈرز کبھی حقیقی جمہوریت قائم نہیں کر سکتے۔ جاگیر دار ہوں یا صنعتکار کو ئی بھی ان لوگوں کو اپنی جماعت میں صف اول پہ لانے کو ہرگز تیار نہیں ہوتے جو کسی طرح بھی ان کے سیاسی اور معاشی مفادات کو پورا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ یہی وجہ ہے کہ اشرافیہ کا یہ طبقہ سیاسی واثت اور سیاسی خاندانوں کے رشتوں اور باہمی کاروبار کو مزیدمظبوط کر کے اپنی جڑیں اور گہری کردیتے ہیں۔ اشرافیہ کا یہ گٹھ جوڑ سیاسی جماعتوں کو کبھی جمہوری طور پہ آزاد اور میرٹ یافتہ نہیں بننے دیتے۔ نتیجتاً پاکستان میں اصل معنوں میں سیاسی جماعتیں اپنی سیاست میں نہ تو جمہوریت پسند ہیں نہ ہی اسیٹس کو کو چیلنج کرنے کی صلاحیت اور خواہش رکھتی ہیں۔