مزید خبریں

نوجوان اور معاشرتی بگاڑ

آپ نے اپنے سوالات کے ذریعے جس اہم پہلو کی طرف متوجہ کیا ہے وہ شریعت کے مقاصد میں سے ایک مقصد ہے، یعنی صالحیت کے ساتھ نسلِ انسانی کا تحفظ۔ اسلام واحد دین ہے جو خاندانی زندگی کو ایمان کی تکمیل اور تقویٰ کے حصول کے لیے ایک شرط قرار دیتا ہے، اور سیرت خاتم النبیؐ سے یہ بات ثابت ہے کہ جو نکاح کا انکار کرتا ہے، سرورِعالمؐ اسے اپنی اْمت میں شمار نہیں فرماتے۔ قرآن کا مطالعہ کریں تو وہ یہ تعلیم دیتا ہے کہ اگر رشتۂ نکاح قائم کیا جائے گا تو اللہ تعالیٰ رزق میں وسعت اور برکت پیدا کریں گے۔
ابلاغِ عامہ اور زندگی کے معاملات میں جس طرح عورت کو بطور ایک مرغوب شے بناکر پیش کیا جارہا ہے اور عام تعلیمی ماحول میں مخلوط تعلیم جس چیز کو فروغ دے رہی ہے وہ حیا اور پاک بازی کی ضد کہی جاسکتی ہے۔ ایسے ماحول میں ایک نوجوان کا نفس کے فتنوں سے محفوظ رہنے کا ایک مسنون ذریعہ وہی ہے جس کا آپ نے ذکر کیا یعنی نکاح۔ لیکن حدیث سے یہ بات بھی ثابت ہے کہ اگر کوئی نوجوان ایسا کرنے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو تو پھر وہ اپنے اخلاق و کردار کے تحفظ کے لیے روزے کو بطور ڈھال استعمال کرے۔
ظاہر ہے روزہ اللہ اور بندے کے درمیان ایک ایسا خفیہ معاملہ ہے جس کا کسی اور کو علم نہیں ہوسکتا اور غیرمحسوس طور پر روزہ انسان کو بدنگاہی، بدخیالی، بدزبانی، غرض ہر برائی سے محفوظ رکھتا ہے۔ اس لیے اگر ہفتے میں دو مرتبہ، یعنی پیر اور جمعرات کو عام دنوں میں روزہ رکھا جائے تو اس سے وہ قوتِ مدافعت پیدا ہوگی جو ایک نوجوان کو بے راہ روی سے محفوظ رکھ سکے گی۔
یہ بات بھی درست ہے کہ ہمیں ایک نئے خاندانی تصور کی ضرورت ہے جس میں نام نہاد مشرقی روایتی تصور سے ہٹ کر قرآن و سنت کی بنیاد پر خاندان کو قائم کیا جائے۔ دیکھا گیا ہے کہ وہ گھرانے بھی جو خود کو دینی گھرانے کہتے ہیں شادی بیاہ کے معاملے میں بڑی حد تک اپنی برادری کی بعض جاہلانہ روایات اور بالخصوص معاشی بنیاد پر رشتے کو زیادہ پسند کرتے ہیں، جب کہ حدیث میں جو چار معیار تجویز کیے گئے ہیں ان میں حْسن، دولت، نسب، تینوں پر تقویٰ اور دین کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔
قرآن کریم نے ایسے نوجوانوں کی شادی کے حوالے سے جو شادی کی عمر کو پہنچ چکے ہوں لیکن وسائل نہ رکھتے ہوں ان کے اہلِ خانہ، اہلِ معاشرہ اور ریاست تینوں کو ذمے دار ٹھہرایا ہے۔ چنانچہ ایک مثالی اسلامی ریاست میں ریاست کی ذمے داری ہوگی کہ وہ مجرد نوجوانوں کو نکاح کے لیے وسائل فراہم کرے، اور ایسے ہی معاشرے کی ذمے داری ہوگی کہ وہ ایسے افراد کے لیے مل کر سہولتیں فراہم کرے۔ آج تحریکِ اسلامی کی ترجیحات میں بھی اس اہم بات کو شامل ہونا چاہیے تاکہ وہ نوجوان جن کی تربیت ِکردار میں سالہا سال صرف کیے جاتے ہیں آزمایش کا شکار نہ ہوں۔
رشتہ کرتے وقت معاشی آسودگی کی شرط پر بھی متوجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ظاہر ہے کوئی نوجوان اچانک اپنے شعبے میں اعلیٰ مقام حاصل نہیں کرسکتا۔ اس لیے کم وسائل کے باوجود نکاح میں تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔ جس کو خوش کرنے کے لیے یہ رشتہ کیا جائے گا وہ کائنات کے تمام خزانوں کا مالک ہے اور وہ ان شاء اللہ ضرور رزق میں برکت دے گا۔