مزید خبریں

نبی ﷺ کا یوم وفات

9 ربیع الاول (دو شنبہ) کو مزاجِ اقدس میں قدرے سکون تھا، نماز صبح ادا کی جا رہی تھی کہ نبیؐ نے مسجد اور حجرے کا درمیانی پردہ سرکادیا۔ اب چشم اقدس کے روبرو نمازیوں کی صفیں مصروف رکوع وسجود تھیں۔ سرکار دوعالمؐ نے اس پاک نظارے کو جو نبیؐ کی پاک تعلیم کا نتیجہ تھا، بڑے اشتیاق سے ملاحظہ فرمایا اور جوش مسرت سے ہنس پڑے۔ لوگوں کو خیال ہوا مسجد میں تشریف لا رہے ہیں، نمازی بے اختیار سے ہوگئے، نماز ٹوٹنے لگیں اور صدیقؓ جو امامت کرا رہے تھے، نے پیچھے ہٹنا چاہا، مگر نبیؐ نے اشارہ مبارک سے سب کو تسکین دی اور چہرہ انور کی ایک جھلک دکھا کر پھر حجرے کا پردہ ڈال دیا۔ اجتماع اسلام کے لیے رسولؐ کا یہ جلوہ زیارت کا آخری تھا اور شاید یہ انتظام بھی خود قدرت کی طرف سے ہوا کہ رفیقان صلوۃ جمال آراء کی آخری جھلک دیکھتے جائیں۔
9 ربیع الاول کی حالت صبح سے نہایت عجیب تھی۔ ایک سورج بلند ہو رہا تھا اور دوسرا سورج غروب ہو رہا تھا۔ کاشانہ نبویؐ میں پے درپے غشی کے بادل آئے اور رسولؐ کے وجود اقدس پر چھا گئے۔ ایک بے ہوشی گزر جاتی تھی تو دوسری پھر وارد ہو جاتی تھی۔ انہیں تکلیفوں پر پیاری بیٹی کو یاد فرمایا۔ وہ مزاج اقدس کا یہ حال دیکھ کرسنبھل نہ سکیں۔ سینہ مبارک سے لپٹ گئیں اور رونے لگیں۔ بیٹی کو اس طرح نڈھال دیکھ کر ارشاد فرمایا:
’’میری بیٹی! رو نہیں، میں دنیا سے رخصت ہو جاؤں گا۔ تو انا للہ و انا الیہ راجعون کہنا۔ اسی میں ہر شخص کے لیے سامان تسکین موجود ہے‘‘۔ سیدہ فاطمہؓ نے پوچھا: کیا آپ کے لیے بھی؟ فرمایا: ہاں، اس میں میری بھی تسکین ہے۔
جس قدر رسولؐ اللہ کا درد وکرب بڑھ رہا تھا، فاطمہؓ کا کلیجہ کٹتا جا رہا تھا۔ رحمۃ العالمینؐ نے ان کی اذیت کو محسوس کر کے کچھ کہنا چاہا تو پیاری بیٹی نے سرورکائناتؐ کے لبوں سے اپنے کان لگا دیے۔ آپؐ نے فرمایا: بیٹی! میں اس دنیا کو چھوڑ رہا ہوں۔ فاطمہؓ بے اختیار رو دیں۔ پھر فرمایا: فاطمہ! اہل بیت میں تم سب سے پہلے مجھے ملو گی۔ فاطمہؓ ہنس دیں کہ یہ جدائی قلیل ہے۔
پیغمبر انسانیتؐ کی حالت نازک ہوتی جارہی تھی۔ یہ حال دیکھ کر فاطمہؓ نے کہنا شروع کیا: واکرب اباہ! ہائے میرے باپ کی تکلیف، ہائے میرے باپ کی تکلیف! فرمایا: فاطمہ! آج کے بعد تمہارا باپ کبھی بے چین نہیں ہوگا۔ حسن و حسینؓ بہت غمگین ہو رہے تھے، انہیں پاس بلایا، دونوں کو چوما، پھر ان کے احترام کی وصیت فرمائی۔ پھر ازواج مطہراتؓ کو طلب فرمایا اور انہیں نصیحتیں فرمائیں۔
اسی دوران میں ارشاد فرماتے تھے:
مع الذین انعم اللہ علیھم
’’ان لوگوں کے ساتھ جن پر اللہ نے انعام فرمایا‘‘۔
اللھم بالرفیق الاعلی
’’اے خداوند! بہترین رفیق‘‘۔
پھر علیؓ کو طلب فرمایا۔ آپؓ نے سرمبارک کو اپنی گود میں رکھ لیا۔ انہیں بھی نصیحت فرمائی۔ پھر ایک دم اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:
’’نماز، نماز اور لونڈی، غلام اور پسماندگان‘‘۔
اب نزع کا وقت آ پہنچا تھا۔ رحمۃ العالمینؓ، عائشہؓ کے ساتھ ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ پانی کا پیالہ پاس رکھا تھا، اس میں ہاتھ ڈالتے تھے اور چہرہ انور پر پھرا لیتے تھے۔ روئے اقدس کبھی سرخ ہو جاتا اور کبھی زرد پڑ جاتا تھا۔ زبان مبارک آہستہ آہستہ ہل رہی تھی۔ لا الہ الا اللہ، ان للموت سکرات۔
’’خدا کے سوا کوئی معبود نہیں اور موت تکلیف کے ساتھ ہے‘‘۔
عبدالرحمن بن ابوبکرؓ ایک تازہ مسواک کے ساتھ آئے تو آپؐ نے مسواک پر نظر جمادی۔ عائشہؓ سمجھ گئیں کہ مسواک فرمائیں گے۔ ام المومنینؓ نے دانتوں میں نرم کرکے مسواک پیش کی اور آپ نے بالکل تندرستوں کی طرح مسواک کی۔ دہان مبارک پہلے ہی طہارت کا سراپا تھا۔ اب مسواک کے بعد اور بھی مجلا ہوگیا تو یک لخت ہاتھ اونچا کیا کہ گویا تشریف لے جا رہے ہیں اور پھر زبان قدس سے نکلا:
بل الرفیق الاعلی۔ ’’اب اور کوئی نہیں، صرف اسی کی رفاقت منظور ہے‘‘۔
بل الرفیق الاعلی۔ بل الرفیق الاعلی۔ تیسری آواز پر ہاتھ لٹک آئے، پتلی اوپر کو اٹھ گئی اور روح شریف عالم قدس کو ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گئی۔
اللھم صلی علی محمد و علی آل محمد و بارک وسلم
یہ ربیع الاول 11ھ دو شنبہ کا دن اور چاشت کا وقت تھا۔ عمر مبارک قمری حساب سے 63 سال اور 4 دن ہوئی۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔