مزید خبریں

مقاصد چھوٹے ہونیکی وجہ سے سیاسی قائدین اپنے خاندان کو ترجیح دیتے ہیں

لاہور (رپورٹ: حامد ریاض ڈوگر) سیاسی و سماجی رہنمائوں نے اس امر پر اتفاق کیا ہے کہ جماعت اسلامی کے علاوہ ملک کی کسی سیاسی و مذہبی جماعت میں انٹرا پارٹی الیکشن کا سسٹم موجود نہیں اور یہ تمام جماعتیں موروثی قیادت کے تابع ہیں‘ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ذمے داری ہے کہ ملک میں جمہوریت کے استحکام و بقا کی خاطر مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے اندر انتخابات کے موثر نظام کو یقینی بنائے تاکہ قوم کو موروثی سیاست سے نجات مل سکے‘مقاصد چھوٹے ہونے کی وجہ سے سیاسی قائدین اپنے خاندان کو ترجیحی دیتے ہیں۔ جماعت اسلامی لاہور کے امیر ڈاکٹر ذکر اللہ مجاہد، دنیا میڈیا گروپ کے گروپ ایڈیٹر سلمان غنی اور لاہور ہائی کورٹ بار کے سابق صدر ذوالفقار چودھری سے ’’جسارت‘‘ نے استفسار کیا کہ پاکستان کی مذہبی اور سیاسی جماعتوں میں قیادت موروثی کیوں ہے؟ تو ذکر اللہ مجاہد نے بتایا کہ بنیادی طور پر انسان اختیار، اقتدار اور طاقت کو اپنی ذات میں مرتکز رکھنا چاہتا ہے‘ ہماری سیاسی جماعتوں کے قائدین کے مقاصد چونکہ بہت چھوٹے ہیں اس لیے ان کی تمام کوششیں ان کی ذات اور خاندان کے گرد ہی گھومتی ہیں اس لیے گزشتہ 75 برس کے دوران پاکستان میں برسراقتدار رہنے والے حکمرانوں کے بچوں اور خاندانوں کے وسائل اور دولت میں تو اس قدر اضافہ ہو گیا ہے کہ ان کی کئی نسلیں بھی خرچ کرتی رہیں تو یہ دولت ختم نہ ہو جبکہ ملک تباہی سے دو چار ہو چکا ہے‘ صرف جماعت اسلامی بلند تر مقاصد کی خاطر کام کرتی ہے‘ اسی لیے اس کے بانی مولانا مودودیؒ نے اپنے بعد جماعت کو بچوں کے حوالے نہیں کیا بلکہ مشاورت اور انتخاب سے جو اہل فرد منتخب ہوا، وہ امیر بن گیا‘ صرف جماعت ہی میں یہ روایت بھی ہے کہ ایک امیر اپنی زندگی میں امارت اور قیادت سے معذرت کر کے ارکان کو نیا امیر منتخب کرنے کی درخواست کرتا ہے‘ اور سینئر امیر اپنے سے بعد آنے والے امیر کے سامنے مرکزی شوریٰ میں بیٹھ کر مشورے دیتا اور اطاعت کی مثال قائم کرتا ہے‘ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جماعت اسلامی میں مقاصد ذات سے زیادہ اہم ہیں، خلافت و ملوکیت کا فلسفہ بھی یہی ہے اور حضرت حسینؓ کی جدوجہد کا مقصد بھی یہی تھا اور اس کی تعلیم رسول اکرمؐ نے دی تھی۔ سلمان غنی نے کہا کہ دراصل پاکستان میں سیاسی جماعتیں حقیقی معنوں میں موجود ہی نہیں‘ اگر یہاں سیاسی جماعتیں ہوتیں تو ملک میں جمہوریت کا اس قدر برا حال نہ ہوتا‘ سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے نام پر یہاں جو گروہ موجود ہیں وہ ملک میں تو جمہوریت کا مطالبہ کرتے ہیں مگر خود اپنی جماعتوں میں جمہوریت رائج کرنے اور پارٹی انتخابات کرانے پر تیار نہیں‘صرف جماعت اسلامی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ جس میں ہر سطح کے اندرونی انتخابات باقاعدگی سے منعقد ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی میں اس کے قیام سے آج تک کبھی موروثی قیادت نہیں آئی‘ عوامی نیشنل پارٹی میں اگرچہ خاندانی قیادت ہی اوپر آتی رہی ہے تاہم اس میں بھی کسی حد تک جماعت کے اندر انتخابات کروانے کی روایت موجود ہے‘ پاکستان میں جمہوریت کو مستحکم کیا جائے اور تمام جماعتوں کے اندرونی انتخابات کو یقینی بنایا جائے‘ جمہوریت کے استحکام ہی سے پاکستان بھی مضبوط و مستحکم ہو گا اور لوگوں کے مسائل بھی اسی طرح حل ہو سکیں گے‘ پاکستان اور یہاں کی سیاسی جماعتوں میں جمہوریت مضبوط ہوتی تو آج تمام سیاسی جماعتیں باہمی اختلافات بھلا کر سیلاب زدہ علاقوں کا رخ کر چکی ہوتیں اور وہاں کے مفلوک الحال لوگوں کے مسائل پر توجہ دے رہی ہوتیں۔ ذوالفقار چودھری ایڈووکیٹ نے کہا کہ ملک کی یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ ہماری سیاسی و مذہبی جماعتوں میں اقتدار کی شدید خواہش تو موجود ہے مگر کسی جماعت کے اندر جمہوریت نام کو بھی نہیں چنانچہ برسراقتدار جماعتوں نے صرف اپنے خاندان کی فلاح کے بارے ہی میں سوچا ہے ‘ملک اور عوام کی کسی کو پرواہ نہیں‘ پیپلز پارٹی کے بزرگ سینئر رہنما اعتزاز احسن یا کسی دوسرے رہنما کو قیادت کا موقع نہیں مل سکتا یہاں صرف نصرت بھٹو، بے نظیر بھٹو یا پھر نام نہاد وصیت کے ذریعے بلاول زرداری ہی پارٹی قیادت کے حق دار ہیں‘ نواز لیگ میں بھی برے وقت میں تو جاوید ہاشمی جیسے سیاستدان کو قربانی کا بکرا بنایا جا سکتا ہے مگر حقیقی پارٹی کی قیادت کے لیے نواز شریف کے بعد ان کے بھائی شہباز شریف اور پھر ان کے بچے مریم نواز اور حمزہ شہباز پارٹی قیادت اور اقتدار کے وارث ٹھہرتے ہیں‘پاکستان میں صرف ایک جماعت اسلامی ہی ایسی تنظیم ہے جو اپنے نصب العین پر سنجیدگی سے گامزن ہے اور اپنے آئین سے انحراف نہیں کرتی‘ جماعت میں نچلی سطح سے مرکز تک بروقت انتخابات کروائے جاتے ہیں‘ باقی تمام سیاسی جماعتیں خاندانی پارٹیاں ہیں‘ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ملک میں جمہوریت کے استحکام اور بقا کی خاطر تمام سیاسی جماعتوں کے اندر حقیقی انتخابات کو یقینی بنائے‘ اگر جماعتوں میں اندرونی سطح پر صاف اور شفاف انتخابی عمل رائج ہو جائے تو قوم کو موروثی سیاست سے نجات مل جائے گی۔