مزید خبریں

مطالعے کے رجحان میں کمی کی وجہ ذہنی خلفشار اور سوشل میڈیا ہے

کراچی (رپورٹ:منیر عقیل انصاری)مطالعے کا رجحان کم ہونے کی سب سے بڑی وجہ ہمارا ذہنی خلفشار ہے، جس میں آپ کا ٹی وی، سوشل میڈیا،موبائل فون اور اس طرح کی دوسری ایسی سرگرمیوں شامل ہیں جو آپ کو ہمیشہ مصروف رکھتیں ہیں، موجودہ دور میں بچوں کو مطالعے سے دور کرنے میں بڑا کردار سوشل میڈیا کا ہے۔موبائل ہر عمر کے بچے کی پہنچ میں ہے۔مطالعے سے دور ہونے میں بچے کا کوئی قصور نہیں۔جب وہ بڑوں کے ہاتھ میں کتاب دیکھتا تھا ،گھر میں اخبار اور رسالے آ تے تھے وہ خود بھی کتاب میں دلچسپی لیتا تھا۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے نامور افراد بل گیٹس اور مارک زکربرگ بھی مطالعے کے شوقین ہیں، والدین، اساتذہ اور سول سوسائٹی پرزور دیا کہ وہ کتابیں پڑھنے ا ور مطالعے کے رجحان کو فروغ دینے کیلیے مل کر کام کریں کیونکہ ترقی کے اہداف کے حصول کا یہ واحد راستہ ہے۔مطالعے کا رجحان کم ہوگیا ہے یا ختم ہوگیا ہے یہ بات ٹھیک نہیں ہے مطالعہ ہورہا ہے کاغذ کے بجائے اسکرین پر ہورہا ہے ۔ ان خیالات کا اظہار متعدد کتابوں کے مصنف ،اردو زبان کے معروف سفرنامہ نگار، ڈاکومنٹری میکر، سیاح، کالم نگار، بلاگر، فوٹوگرافر اوراین ای ڈی یونیورسٹی سے میکینکل انجینئر، اردو کی پہلی ڈیجیٹل کتاب دریا دریا وادی وادی کے خالق ، پاکستان کے کئی اخبارات و جرائد میں ان کی تحریریں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ پاکستان، ایران، چین، آذربائیجان، ترکی، سعودی عرب اور بنگلا دیش کے سفر پر مشتمل ان کے سات سفرنامے شائع ہوچکے ہیں۔ حال ہی میں کراچی سے متعلق یاداشتوں پر مبنی شائع ہونے والی کتاب کراچی جو اک شہر تھاکے مصنف عبید اللہ کیہر ،پاکستان کے مقبول ترین موٹیویشنل اسپیکر، ٹرینر، استاد اورکئی کتابوں کے مصنف ڈاکٹر محمد عارف صدیقی،پنجاب یونیورسٹی فیکلٹی آف انفارمیشن اینڈمیڈیا اسٹڈیز کے ڈین پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود اورکریکٹر ایجوکیشن فاونڈیشن پاکستان کراچی کے ایمبیسیڈر ،پاکستان ترکی بزنس فورم کے بانی و صدر معروف ماہر تعلیم محمدفاروق افضل نے جسارت کے سوال کہ مطالعے کا رجحان کم کیوں ہوگیا ہے؟کے جواب میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔ عبید اللہ کیہرنے کہا کہ مطالعے کے رجحان کم ہونے کی بات کو 100 فیصد درست نہیں کہا جاسکتا ہے ‘مطالعہ تو آج بھی کسی نہ کسی صورت میں ہورہا ہے ‘دراصل لوگ مطالعہ کاغذ پر لکھی ہوئی تحریر کو سمجھتے ہیں اور جو آپ کمپیوٹر پر بیٹھ کر پڑھ رہے ہے جو آپ موبائل کی اسکرین کی صورت میں پڑھ رہے ہیں وہ مطالعہ نہیں ہے یہ عجیب بات ہے تحریر کیا ہوتی ہے تحریر لفظ کا نام ہے تحریر کسی میٹریل کا نام نہیں ہے تحریر کسی کاغذ کا نام بھی نہیں ہے تحریر حروفِ کا نام ہے تو اگر لوگ موبائل فون پر آپ کا سوال دیکھ کر زیادہ پڑھ رہے ہیں اور اس کو اگر کتاب میں کم پڑھ رہے ہیں تو آپ اس کو کیسے کہہ سکتے ہیں کہ مطالعے کا رجحان کم ہوگیا ہے آپ یہ دیکھے کہ جب سوشل میڈیا کے شروع کے دن تھے تو اس وقت لوگوں کو بات کرنا بھی نہیں آتی تھی اکثر لوگ السلام علیکم ،وعلیکم السلام یا سبحان اللہ ماشاء اللہ بس یہیں چند جملے پڑھ پاتے تھے اس زیادہ کوئی بات ہی نہیں کر پاتا تھا پھر آہستہ آہستہ لوگوں نے زراہ زیادہ جملے لکھنے اور پڑھنے شروع کیے ہیں اب تو لوگ ایک ایک کمنٹ کے اوپر تین تین صفحے اور کئی کئی پیراگراف کی پوسٹ اور اس پرکمنٹس کر دیتے ہیںہاں آپ اس میں یہ تو کہہ سکتے ہیں کے بڑے ادیبوں کو بڑے رائٹرز کو کتنا پڑھا جا رہا ہے یہ سوال ضرور ہے لیکن یہ کہہ دینا کہ مطالعے کا رجحان کم ہوگیا ہے یا ختم ہوگیا ہے یہ بات ٹھیک نہیں ہے مطالعہ ہورہا ہے کاغذ کے بجائے اسکرین پر ہورہا ہے ۔ ڈاکٹر عارف صدیقی نے کہا کہ مطالعہ کے رجحان میں کم ہونے کی سب سے بڑی وجہ ذہنی خلفشار ہے، اس کی کئی وجوہات ہے جس میں آپ کا ٹی وی، سوشل میڈیا،موبائل فون اور اس طرح کی دوسری ایسی سرگرمیوں بھی شامل ہیں جو آپ کو ہمیشہ مصروف رکھتیں ہیں ہمارے یہاں عام طور پر لوگوں کی سوچ یہ ہوگئی ہے کہ موجودہ دور ملٹی ٹاسکنگ کا دور ہے ایک انسان بیک وقت کئی کام کرسکتا ہو لیکن مطالعہ توجہ اور یکسوئی مانگتا ہے تو اس وجہ سے لوگ مطالعے سے دور ہوتے جارہے ہیں لیکن اگر مطالعے سے دور ہونے کے نقصانات کی بات کریں تو جیسا کے میں نے پہلے کہا تھا کہ مطالعے کے لیے یکسوئی اور رجحان چاہیے ہوتا ہے مطالعے سے دوری کا نتیجہ یہ ہوا کہ آپ مطالعے کے رجحان اور یکسوئی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہے اب ہم سب کے سب شکار اس بات کا ہے کہ ہم یہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس وقت نہیں ہے ،ہماری توجہ فوکس نہیں ہوپارہی ہے نتیجتاً ہم سب کے سب ذہنی دبائو کے ساتھ اپنی زندگی گزرنے پر مجبورہیں اگر ہمیں اپنا فوکس درست چاہیے ارتکاز چاہیے تو ہمیں کتابوں کی طرف دوبارہ سے آنا ہوگا،انہوں نے کہاکہ کتابیں آپ کو اخلاقیات، اقدار سیکھاتی ہیں حتیٰ کے کہا جاتا ہے کہ کتابیں انسان کا مرشد ہوتی ہیں آپ دیکھے کے شاہ ولی اللہ کے جو رسائل ہیں انھیں وہ مرشد کا قائم مقام قرار دیتے ہیں ،کیونکہ وہ آپ کی اخلاقی تربیت کرتے ہیں مرشد کا کام کیا ہے راستہ دیکھنا اور کتابیں راستہ دیکھاتی ہیں آک کے جیسے مرشدِ ہوں گے ویسی منزل ہوگی کتابیں اچھی ہوں گی تو یعنی اچھا مرشد ہوگا اچھا مرشد اچھی منزل پر لیکر جائے گا کتاب کو دیکھ لیں تو اسکو کتنی اہمیت دی گئی ہے قرآن مجید کو بھی امل کتاب کہا جارہا ہے یعنی اسے بھی ایک کتاب سے تشبیہ دی جاتی ہے تو کتاب کو پڑھنا کتاب کو سمجھنا کتاب پر عمل کرنا موجودہ معاشرے میں بہت ضروری ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارا ذہنی خلفشار ہمیں مطالعے سے دور کررہی ہیں جو ہمارے ٹائم کو کنزیم کر کے تباہ کر رہیں ہیں۔پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود نے کہا کہ موجودہ دور میں بچوں کو مطالعے سے دور کرنے میں بڑا کردار سوشل میڈیا کا ہے۔موبائل ہر عمر کے بچے کی پہنچ میں ہے۔مطالعے سے دور ہونے میں بچے کا کوئی قصور نہیں۔ جب وہ بڑوں کے ہاتھ میں کتاب دیکھتا تھا ،گھر میں اخبار اور رسالے آ تے تھے وہ خود بھی کتاب میں دلچسپی لیتا تھا۔ اب والدین کے پاس ہمہ وقت موبائل ہے اور اس سے متعلقہ موضوعات نے بچوں کی سوچ کے دھاروں کا بھی رخ موڑ کر سوشل میڈیا کی طرف پھیر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کتاب انسان کی دوست اس لیے ہے کہ یہ اسے علم دیتی ہے اور اسے مہذب بنانے میں ایک کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ ماہر تعلیم محمدفاروق افضل نے کہا کہ دنیا کی جدت جہاں کئی سہولیات لائی وہیں کئی ایسے معاملات بھی ہیں جو اس جدت کے منفی پہلوئوں میں گردانے جاتے ہیں، اس میں ایک کتابوں سے محبت ختم ہونا بھی ہے ، اگریہ کہا جائے کہ آج لوگوں میں پڑھنے کا ہی شوق ختم ہو چکا ہے تو غلط نہ ہوگا۔ آج انٹرنیٹ، موبائل اور سوشل میڈیا نے لوگوں کے ذہنوں پر ایسا قبضہ کر لیا ہے کہ کتابوں کی جگہ ہی نہیں بچی۔ ٹی وی اور سوشل میڈیا کی چکا چوند دنیا کو دیکھ کر پڑھنے کی جانب کون آئیگا؟ کتابوں کا شوق کم ہونے کی یہ بھی وجہ ہے کہ آج بہت سی کتابیں مختلف صورتوں یعنی ریویوز اورسمری کی صورت میں آن لائن بھی دستیاب ہیں‘ چنانچہ انٹرنیٹ سے براہ راست مطالعے کی عادت کتب بینی کے رجحان میں دن بدن کمی کرتی جا رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مطالعہ اور پڑھنے سے نابلد افراد قومی معیشت پر بوجھ ہوتے ہیں۔انہوں نے تجویز پیش کی کہ والدین ،اساتذہ اور محکمہ تعلیم مل کر ایک مثبت اور بڑی تبدیلی لا سکتے ہیں کیونکہ ایک بچہ صرف اس وقت سیکھ سکتا ہے جب وہ پڑھ سکتا ہو۔انہوں نے والدین، اساتذہ اور سول سوسائٹی پرزور دیا کہ وہ کتابیں پڑھنے ا ور مطالعے کے رجحان کو فروغ دینے کیلیے مل کر کام کریں کیونکہ ترقی کے اہداف کے حصول کا یہ واحد راستہ ہے۔مکتب اور مکتبہ، یہ تینوں چیزیں قوموں کی زندگی میں بڑی اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔ ہر قسم کی ترقی کے دروازے انہی کنجیوں سے کھلتے ہیں۔ یہ تینوں حصولِ علم و تعلیم کے بنیادی ذرائع ہیں، علم نور ہے اور انسانیت کا زیور ہے، علم ہی جائز و ناجائز میں فرق کرتا ہے، دین و دنیا کی ساری کامیابیاں اور بھلائیاں علم سے ہیں اور علم کا سب سے بڑا ذریعہ کتاب ہے۔