مزید خبریں

رسائل و مسائل

نقد‘ اْدھار اور قسطیں
نقد اور اْدھار کی قیمتوں کے فرق کی گنجایش کو ایسے کاروبار کا ذریعہ نہ بنا دینا چاہیے جو سود کا متبادل بن کر رہ جائے اور جس میں سودی ذہنیت کارفرما ہو۔ مولانا مودودیؒ نے تفہیم القرآن میں سود اور بیع کا فرق بیان کرتے ہوئے اس مسئلے کی اچھی طرح وضاحت فرمائی ہے: ’’تجارت میں بائع مشتری سے خواہ کتنا ہی زائد منافع لے‘ بہرحال وہ جو کچھ لیتا ہے‘ ایک ہی بار لیتا ہے۔ لیکن سود کے معاملے میں مال دینے والا اپنے مال پر مسلسل منافع وصول کرتا رہتا ہے اور وقت کی رفتار کے ساتھ ساتھ اس کا منافع بڑھتا چلا جاتا ہے۔ مدیون نے اس کے مال سے خواہ کتنا ہی فائدہ حاصل کیا ہو‘ بہرطور اس کا فائدہ ایک خاص حد تک ہی ہوگا۔ مگر دائن اس فائدے کے بدلے میں جو نفع اٹھاتا ہے‘ اس کے لیے کوئی حد نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ مدیون کی پوری کمائی‘ اس کے تمام وسائل معیشت حتیٰ کہ اس کے تن کے کپڑے اور گھر کے برتن تک ہضم کرلے اور پھر بھی اس کا مطالبہ باقی رہ جائے‘‘۔ (تفہیم القرآن‘ ج 1‘ ص 212-213) مزید تفصیل کے لیے حاشیہ 318‘ جو آیت ’’حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام‘‘ (البقرہ: 275) کی تفسیر کے سلسلے میں تحریر کیا گیا ہے‘ کا مطالعہ فرمائیں۔
اقساط کی صورت میں وہ منافع جو غیرسودی ہے اور وہ جو سودی ہے‘ کا فرق اس طرح ملحوظ رکھا جائے کہ قسطیں طے ہونے کے بعد اس میں مزید اضافہ کسی صورت میں نہ ہو تو یہ بیع اور غیرسودی کاروبار شمار ہوگا‘ جیسے کہ تفہیم القرآن میں وضاحت ہوگئی ہے کہ بیع میں منافع طے شدہ ہوتا ہے اور ایک ہی مرتبہ ہوتا ہے‘ اس میں اضافہ نہیں ہوتا اور اگر اس میں اضافہ ہوتا رہے تو پھر وہ اقساط سود شمار ہوں گی۔ نیز کسی شے کا بہت زیادہ مہنگا ہونا جو سود کا متبادل بن کر رہ جائے‘ وہ بھی درست نہیں ہے۔ اگرچہ طے شدہ ہونے کی صورت میں ہم اسے سود نہیں بلکہ منافع ہی کہیں گے۔ واللّٰہ اعلم!
٭…٭…٭
حج کے بعد عمرہ
جب یہ بات ثابت ہے کہ سیدہ عائشہؓ نے حج کے بعد عمرہ کیا ہے تو اس سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ حج کے بعد عمرہ کیا جاسکتا ہے۔ رہی یہ بات کہ سیدہ عائشہؓ کا عمرہ اس عمرے کی قضا تھی جو ان سے رہ گیا تھا‘ تو اس سے حج کے بعد عمرے کو قضا کی صورت کے ساتھ مخصوص نہیں کیا جاسکتا‘ بلکہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حج کے بعد نفل عمرہ کیا جاسکتا ہے جس طرح عمرے کی قضا کی جاسکتی ہے۔ اس لیے کہ عمرہ قضا ہو یا ادا‘ واجب ہو یا سنت‘ اس کا طریق کار‘ شرائط‘ واجبات اور سنن میں کوئی فرق نہیں ہے۔ نیز نبیؐ نے بھی جعرانہ سے مستقل عمرہ کیا تھا۔ حج کے بعد عمرے کی نفی اس وقت کی جاسکتی ہے جب نبی کریمؐ نے اس کی نفی یا حمایت کی ہو یا سیدہ عائشہؓ کو عمرہ کرنے کے موقع پر فرمایا ہو کہ جس کا عمرہ رہ گیا ہو وہ حج کے بعد عمرہ کر سکتا ہے۔ دوسرا شخص جس نے حج سے پہلے عمرہ کر لیا ہو‘ وہ بعد میں عمرہ نہیں کرسکتا۔ رہی یہ بات کہ نبیؐ نے ہر مرتبہ حج کے بعد عمرے کو معمول نہیں بنایا تو اس سے بھی حج کے بعد عمرے کی نفی نہیں کی جا سکتی۔ اس لیے کہ بیان جواز کے بعد معمول نہ بنانے سے جواز کی نفی نہیں کی جاسکتی۔
نبیؐ نے سیدہ عائشہؓ کو حج کے بعد عمرہ کروا کر اس بات کا جواز بیان کر دیا کہ حج کے بعد عمرہ کرنے کی اجازت ہے۔ آج کل بھی حجاج کرام کا معمول نہیں ہے کہ وہ حج کے بعد تنعیم سے عمرہ کریں۔ کچھ لوگ عمرہ کرتے ہیں اور کچھ لوگ محض طواف پر اکتفا کرتے ہیں۔ دونوں طریقے صحیح ہیں۔ اعتدال کی راہ یہ ہے کہ کسی کی اپنی طرف سے نفی نہ کی جائے کہ یہ شریعت میں اپنی طرف سے اضافہ کرنے کے مترادف ہے۔ غلو اور افراط و تفریط سے پرہیز کرنا چاہیے۔ واللّٰہ اعلم!