مزید خبریں

تربیت اور حقوق العباد

اسلام میں بندوں کے حقوق اور بندوں کے معاملات کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ اللہ نے ہر انسان کی جان‘ اس کا مال اور اس کی عزت‘ تینوں کو حرام قرار دیا ہے۔ ہم میں سے شاید ہی کوئی ہوگا جو کسی کی جان لینا چاہے گا‘ لیکن مال کے معاملے میں لوگ بڑے بے احتیاط ہوتے ہیں۔ کسی کی مرضی کے بغیر اس کا مال لینا‘ حرام ہے۔ کسی کا حق مار لینا یہ اس سے بھی بڑا حرام کام ہے اور یہ ایسا جرم ہے جس کی کوئی تلافی نہیں ہے‘ الاّ یہ کہ اس کا بدلہ دیا جائے۔ شراب پی‘ تو یہ ایسا گناہ ہے کہ اللہ‘ استغفار سے شاید معاف کردے لیکن اگر کسی کا حق مارلیا‘ کسی کا مال ناجائز طور پر کھا لیا‘ تو جب تک اس کا بدلہ نہ دے دیا جائے‘ اس کو معاف نہ کروائیں‘ کوئی معافی نہیں ہے۔ ہم لوگ سور کا گوشت نہیں کھاتے کہ حرام ہے۔ حالانکہ سور کا گوشت اگر کھالیں تو شاید اللہ تعالیٰ استغفار سے معاف فرمادے۔ اس لیے کہ آپ نے صرف اپنے آپ کو نقصان پہنچایا ہے اور اللہ کے حکم کی نافرمانی کی ہے۔ لیکن اگر آپ نے کسی کی عزت پر حملہ کیا‘ کسی کی غیبت کی‘ کسی کو گالی دی‘ کسی کا تمسخر اڑایا ‘ کسی کو قتل کر دیا‘ تو یہ اس سے بڑے گناہ ہیں جتنا کہ سور کا گوشت کھانا۔ یہ وہ حرام کام ہیں کہ جن میں اگر آپ ملوث ہوں‘ تو جب تک آپ متاثرہ فریق سے معاف نہ کروالیں‘ یا آپ اللہ کو اس قدر محبوب ہوں کہ وہ آپ کی طرف سے کچھ دے دلا کر اس بندے کو راضی کر لے‘ تو وہ الگ معاملہ ہے (کیا اتنے نیک ہیں ہم!) ورنہ قاعدہ اور اصول تو یہی ہے کہ یا تو آپ اس کو معاف کروائیں یا پھر قصاص دیں‘ اس کا بدلہ دیں۔
بندوں کے حقوق اور معاملات کی جب اس قدر اہمیت ہے تو پھر اس کا ناگزیر تقاضا ہے کہ ہم کسی کو ایذا نہ پہنچائیں‘ تکلیف نہ دیں۔ بیوی بچے ہوں یا دوست احباب‘ یا کوئی اور شخص جو ساتھ آکر بیٹھ جائے‘ ہماری کوشش ہو نی چاہیے کہ کسی کو بھی ہم سے تکلیف نہ پہنچے۔ ایک پڑوسی تو وہ ہے جس کا دروازہ ہمارے گھر کے دروازے کے ساتھ ملا ہوا ہے‘ ایک پڑوسی وہ ہے جو ہمارا رشتے دار بھی ہے‘ لیکن ایک پڑوسی وہ ہے جو پہلو میں آکر چند لمحوں کے لیے بیٹھ جائے۔ ہر پڑوسی کا ہم پر حق ہے۔ جو ساتھ بیٹھا ہوا ہے اس کا بھی حق ہے‘ جو کمرے میں ساتھ رہتا ہے اس کا بھی آپ پر حق ہے‘ اور ان سب حقوق کا قرآن مجید میں ذکر موجود ہے۔ بیوی بچے بھی پڑوسی ہیں‘ ایک لحاظ سے ان کا بھی حق ہے۔ لہٰذا بندوں کے یہ حقوق کہ ہم کسی کو ایذا نہ پہنچائیں‘ کسی کا حق نہ ماریں‘ کسی کی عزت پر حملہ نہ کریں‘ زبان کو پاک صاف رکھیں‘ بْرے انداز میں کسی کا ذکر نہ کریں‘ کسی کا مذاق نہ اڑائیں‘ کو ئی ایسی بات نہ کریں جس سے کسی کو تکلیف پہنچے‘ دل آزاری ہو‘ جذبات کو ٹھیس پہنچے وغیرہ وغیرہ‘ ہماری خصوصی توجہ چاہتے ہیں۔
یہ دو بڑی اہم باتیں ہیں کہ اللہ کی مرضی و خوشنودی کے لیے کام کرنا‘ اور بندوں کا حق نہ مارنا اور ان کو تکلیف نہ پہنچانا۔ انھی دو اصولوں کی بنیاد پر آپ عمل کرتے جائیں تو ان شاء اللہ آپ کو اپنی تربیت کے لیے بڑی مدد ملے گی۔
تربیت کے ضمن میں یہ چند بنیادی باتیں ہیں۔ ہم انھیں یاد رکھیں اور یہ اہم ترین اصول ہمیشہ پیش نظر رہے کہ ہر فرد اپنی تربیت کا خود ہی ذمے دار اور جوابدے ہے۔ درس قرآن‘ تقاریر‘ تربیت گاہیں‘ دوست احباب‘ مطالعہ لٹریچر‘ گردونواح کا ماحول اور افراد تب ہی معاون و مددگار اور مؤثر ہوں گے جب ہم ارادہ اور عزم مصمم کرلیں کہ ہمیں اپنی تربیت آپ کرنا ہے‘ اور پھر اس کے لیے عمل شروع کردیں خواہ وہ کتنا ہی معمولی ہو لیکن ہو مسلسل۔ یہی تربیت کی بنیاد ہے۔