مزید خبریں

دھڑے بندی ، مخلوط حکومت کا ایک دوسرے پر اعتماد نہ کرنا معاشی عدم استحکام کا باعث ہے

کراچی (رپور ٹ/ محمد علی فاروق) شہباز حکومت قرض لے کر آئی ایم ایف کی غلامی کر رہی ہے اور آئی ایم ایف کے احکامات پر حرف با حرف عمل پیرا ہوکر عوام کی مشکلات میں مزید تکلیف کا باعث بن رہی ہے، موجودہ مخلوط حکومت اس امید و یقین دہانی پر اقتدار میں آئی تھی کہ وہ اپنے سابقہ تجربے کی روشنی میں ملکی معیشت کی باگ ڈور کو سنبھال کر پچھلی حکومتی غلطیوں کو نہیں دہرائے گی، مسلم لیگ کی اندرونی دھڑے بندیوں، ملکی سیاسی عدم استحکام اور مخلوط حکومت کا ایک دوسرے پر اعتماد نہ کرنا بھی معیشت کے عدم استحکام کا باعث ہے، شہباز حکومت نے مقتدر قوتوں کی حمایت سے اقتدار حاصل تو کرلیا مگر عوام میں کیسے مقبول ہونا ہے اس حوالے سے کسی قسم کی منصوبہ بندی نہیں کی گئی اور نہ ہی حکومتی مالی خسارے میں کمی لانے اور قومی معیشت پر بوجھ بنے والے سرکاری اداروں میں اصلاحات کی گئیں جبکہ حکومت کی رٹ اسلام آباد اور سندھ تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ ان خیالات کا اظہار امیر جماعت اسلامی سندھ محمد حسین محنتی، کراچی یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر محمد علی اور معروف تجزیہ کار ڈاکٹر نوازالہدیٰ نے جسارت سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ امیر جماعت اسلامی سندھ محمد حسین محنتی نے کہا کہ شہباز شریف حکومت جب سے برسر اقتدار آئی ہے ملک میں معاشی مسائل بہت گھمبیر ہوچکے ہیں، لیکن ان کے پاس مسائل کے حل کیلیے کوئی راستہ نہیں ہے سوائے یہ کہ وہ آئی ایم ایف سے مدد لیں یا آئی ایم ایف کی غلامی کریں اور ان کے احکامات پر عمل کریں، ظاہر ہے ایسے حالا ت میں چاہیے تھا کہ حکومت ایسے انقلابی یا بڑے اقتدامات کرتی جس کی وجہ سے ملکی معیشت کی بہتری کی کوئی سمت بن سکتی لیکن حکومت کی جانب سے کوئی خاطر خواہ پالیسی ملکی معیشت کے حوالے سے سامنے نہیں آئی بلکہ مفتاح اسماعیل کی جانب سے دی گئی ہدایت سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ آئی ایم ایف کے ہر اشارے پر من و عن عمل کیا جائے۔ حکومت کی جانب سے اقدامات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہ پوری طرح آئی ایم ایف کے احکامات پر عمل پیرا ہے اور چاہتی ہے کہ عوام کو دی جانے والی تیل اور بجلی کی سرکاری سبسیڈیز کو بھی ختم کردے اور محصولات کی وصولی میں بھی درآمدی و برآمدی اشیاء پر مزید ڈیوٹی میں اضافہ کیا جائے۔ یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ حکومت آئی ایم ایف کا اتنا دباؤ کیوں لے رہی ہے؟ جبکہ موجودہ حکومت کی کوشش ہے کہ وہ آئی ایم ایف سے کیے گئے معاہدوں کو بھی جون 2023ء تک توسیع دلوائے اور آئی ایم ایف کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی جائے کہ ملکی سیاسی صورتحال اور آئندہ انتخابات کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت کو کچھ مزید رعایت دی جائے۔ پاکستان ایک آزاد ملک ہے اور آئی ایم ایف سے قرض لینے کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ آئی ایم ایف کی غلامی کی جائے اور آئی ایم ایف کی ہدایت پر عمل پیرا ہوجائیں، ہمیں حکومت سے توقع ہے کہ وہ جلد از جلد اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرے تاکہ ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کی کوشش کی جائے۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد علی نے کہا کہ شریف حکومت کے ملکی معیشت کو مستحکم نہ کرنے کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں سر فہرست ملکی سیاسی عدم استحکام ہے یہ کیفیت ایڈہاک ازم اور مسلم لیگ کے اندرونی دھڑے بندیوں، مخلوط حکومت کا ایک دوسرے پر اعتماد نہ کرنا بھی ہے۔ موجودہ مخلوط حکومت اس امید و یقین دہانی پر اقتدار میں آئی تھی کہ وہ اپنے سابقہ تجربے کی روشنی میں ملکی معیشت کی باگ ڈور کو سنبھالے گی اور پچھلی حکومتی غلطیوں کو دہرایا نہیں جائے گا، ایسی پالیسیاں بنائی جائیں گی جس سے عوام کو زیا دہ سے زیادہ ریلیف دیا جاسکے تاہم موجودہ حکومت کے آنے کے کچھ ہی عرصے کے بعد ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت اور مہنگائی کے طوفان نے ان کے دعوؤں کی نفی کردی جس کی بنا پر ان کو سیاسی سطح پر بھاری قیمت چکانی پڑی، اس کی واضح مثال پنجاب میں ہونے والے ضمی انتخاب ہیں جس میں ان کو شکست ہوئی، پنجاب میں ن لیگ کی شکست کی اصل وجہ بھی بدترین معاشی پالیسیاں ہی بنیں، کوئی بھی بیرونی یا اندرونی سرمایا کار اس حکومت پر کھلے دل سے اعتماد نہیںکر رہا اور نہ ہی وہ رقم اس ملک میں لانے کو تیار ہے۔ آئی ایم ایف اور دیگر دوست ممالک بھی اس موجودہ مخلوط حکومت کے ساتھ بہت اچھے تعلقات رکھنے پر زیادہ زور نہیں دے رہے، جس کی وجہ سے موجودہ حکومت کو بہت زیادہ معاشی دباؤ کا سامنا ہے اور عوام کو ریلیف دینے میں بھی یکسر ناکام نظر آئی ہے۔ سیاسی عدم استحکام کے علاوہ ن لیگ بھی 2 گروپوں میں تقسیم ہوچکی ہے اور ملک میں متوازی 2 پالیسیاں سامنے آرہی ہیں، ایک گروپ کو مریم نواز لیڈ کر رہی ہیں جبکہ دوسرے گروپ کو مفتاح اسماعیل لیڈ کر رہے ہیں، ان دونوں کے باہمی ٹکراؤ کے نتیجے میں بھی حکومتی سطح پر کوئی معاشی پالیسی نہیں بنائی جارہی جس سے عوام کو فائدہ پہنچ سکے۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد علی نے کہا کہ شہباز شر یف کی حکومت مشکل فیصلوں کے نام پر عوام پر بہت زیادہ بوجھ ڈال رہی ہے جبکہ مریم نواز کی یہ خواہش ہے کہ اپنے سیاسی استحکام کو بچانے کیلیے مشکل فیصلے کرنے سے گریز کیا جائے، ان دونوں گروہوں کے اندرونی اختلافات کی وجہ سے ہی معاشی پالیسیاں نہیں بنائی جارہی ہیں۔ موجودہ مخلوط حکومت جو کہ بنیا دی طور پر بہت کمزور ہے اس میں شامل اتحادی بھی حکومت کو کسی قسم کی سہولت فراہم کرتے نظر نہیں آرہے اتحادی حکومت کیلیے لفاظی تو کر رہے ہیں مگر حکومت کے مشکل فیصلوں میں ان کا ساتھ نہیں دیا جارہا ہے، ہر کوئی اپنی اپنی سیاسی ساخت اور وجود کو بچانے میں مصروف ہے اور ملک کے مفاد کو اس وقت مکمل طور پر نظر انداز کیا جارہا ہے اور ان سب کی نظریںاگلے الیکشن پر مرکوز ہیں۔ حکومت کی معاشی بدحالی کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ عمران خان کی بڑھتی ہوئی عوامی مقبولیت نے بھی حکو مت کو ذہنی دباؤ کا شکار بنا رکھا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ درست سیاسی فیصلے کرنے سے قاصر ہے۔ اس مسئلے سے نکلنے کا واحد حل یہ ہے کہ حکومت ملک میں جلد از جلد انتخابات کرائے اور جو بھی جیت کر آئے وہ حکومت کی باگ ڈور سنبھال کر ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام اور معاشی بحران کو ختم کر کے طویل معیاد پالیسیا ں بنائے تاکہ عوام کو کچھ نہ کچھ ریلیف دیا جاسکے۔ معروف تجزیہ کار ڈاکٹر نوازالہدیٰ نے کہا کہ ملکی معیشت کے استحکام کا دارومدار عوامی بے چینی سے پاک سیاسی ماحول اور پائیدار سماجی و معاشی منصوبے سے جڑا ہوتا ہے، شریف حکومت کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ انہوں نے مقتدر قوتوں کی حمایت سے حکومت حاصل تو کرلی، مگر اس حکومت کو عوام میں کیسے مقبول کرنا ہے اس حوالے سے کسی قسم کی منصوبہ بندی نہیں کی گئی اور نہ ہی حکومتی مالی خسارے میں کمی لائی گئی، قومی معیشت پر بوجھ بنے سرکاری اداروں میں بھی اصلاحات نہیں کی گئیں، بجلی و تیل کی قیمتوں پر سرکاری رعایت میں بھی کمی نہیںہوئی، گندم تک بیرون ملک سے خریدی جا رہی ہے جبکہ رجیم چینج کے جھوٹے بیانیے کو کیسے بے اثر کرنا ہے اس کیلیے ٹھوس بنیادوں پر حکمت عملی کو بھی اہمیت نہیں دی گئی، یہی وجہ ہے کہ شریف حکومت شروع کے 3 مہینے شدید پریشان رہی کہ نہ جانے کب ہمیں لانے والے نئے الیکشن پر ڈٹ جائیں۔ اسی صورت حال میں شریف خاندان اور ان کے قریبی سیاستدان بھی آپس میں تقسیم ہوگئے۔ دوسری جانب شہباز شریف اور ان کے ساتھ موجودہ مسلم لیگی کابینہ حکومت ملنے کے نشے میں ڈوبی ہوئی تھی جسکی وجہ سے ان کی کسی قسم کی تیاری بھی نہیں تھی کہ کس طرح پچھلی حکومت کے پیدا کردہ بحرانوں سے نمٹا جائے گا۔ صورتحال واضح کر رہی ہے کہ شہباز شریف اور ان کے رفقاء نے صرف حکومتی کرسی پر مزے کرنے کے خواب دیکھے، شریف فیملی کی بقاء اس وقت مریم نواز کی سچ پر مبنی سیاست سے ہی ممکن ہے جس کیلیے انہیں قابل اور وفادار ساتھیوں کی اشد ضرورت ہے۔