مزید خبریں

فلاحی ریاست نہ بننے کی وجہ حکمرانوں کا اسلام کے نام پر اپنے مفادات کا حصول ہے

کراچی(رپورٹ:حماد حسین) 75سا ل گزرنے کے باوجود پاکستان کے تاحال فلاحی ریاست نہ بننے کی وجہ حکمرانوں کا اسلام کے نام پر اپنے مفادات کا حصول ہے‘ قوم کو جاگیر دارانہ نظام نے جکڑ لیا‘ ہم برطانوی سامراجی قوانین کو ہی نافذ کرتے رہے‘ دستور کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں تشکیل نہیں دیا‘ اشرافیہ کے لیے ملک چراگاہ بن گیا‘ ہم نے ووٹ کی اہمیت کو سمجھا نہ دستور کی حفاظت کی‘ عدم مساوات، سیاسی عدم استحکام اور معاشی تفریق نے مایوس کن فضا قائم کی۔ ان خیالات کا اظہار سابق ڈین سوشل سائنسز جامعہ کراچی پروفیسر ڈاکٹر محمد احمد قادری، گورنمنٹ ڈگری گرلز سائنس اینڈ آرٹس کالج، بلدیہ ٹاؤن کی اسسٹنٹ پروفیسر سعدیہ مہوش اور وفاقی اردو یونیورسٹی سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے شعبہ تعلیم سے وابستہ ماہ پارہ کمال نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’75 سال گزرنے کے باوجود پاکستان تاحال فلاحی ریاست کیوں نہیں بن سکا‘‘؟ ڈاکٹر محمد احمد قادری کا کہنا تھا کہ یہ سوال تو بحیثیت پاکستانی ہر کسی کو سوچنا چاہیے کہ75سال گزرنے کے باوجود پاکستان تاحال فلاحی ریاست کیوں نہیں بن سکا‘ اس کا اجتماعی جواب یہ ہے کہ ہم نے آج تک ووٹ کی اہمیت کو سمجھا ہی نہیں ہے‘ ہم نے اس عہد کی بھی خلاف ورزی کی ہے جس میں ہم نے یہ عہد کیا تھا کہ ہم دین اسلام کی سربلندی کے لیے کام کریں گے‘ ہم ایسی فلاحی ریاست قائم کرنے کی بات کر رہے ہیں جو کہ کسی سیاسی پارٹی کی ریاست نہیں بلکہ ایسی فلاحی ریاست ہو جس میں کسی رنگ و نسل اور خاص مذہب کے افراد کے بجائے ہر شہری کو اس کے مذہب کے مطابق کام کرنے کی اجازت ہو‘ بد نصیبی یہ ہے کہ پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے مگر جب سے قائم ہو ا ہے تو اس پر حکمرانی ایسے لوگوں نے کی جنہوں نے کبھی اسلام، جمہوریت اور نظریہ مملکت کے نام پر اپنے مفادات کا تحفظ کیا‘ نتیجہ یہ نکلا کہ نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم، نہ ادھر کے ہوئے نہ ادھر کے ہوئے‘ پاکستان اس لیے بھی فلاحی ریاست نہیں بنا کیونکہ ہم نے آج تک اس کے دستور کی حفاظت ہی نہیں کی۔ سعدیہ مہوش کا کہنا تھا کہ پاکستان دنیا کی غالباً واحد اسلامی نظریاتی ریاست ہے جو اسلام کے سنہرے اور حقیقی فلاحی تصورات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے حاصل کی گئی مگر بد قسمتی سے اپنے قیام کے 75 برس گزرنے کے باوجود ہم اس کے قیام کے حقیقی مقاصد کے حصول میں بری طرح ناکام رہے ہیں اور اس ناکامی کے پس پردہ متعدد اسباب کار فرما ہیں۔ بنیادی طور پر ہم نے اپنے دستوری اور قانونی ڈھانچے کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں تشکیل ہی نہیں دیا اور برطانوی سامراجی قوانین کو ہی پاکستانی اور اسلامی اصولوں کی ملمع کاری کر کے نافذ کرتے رہے‘ یوں اسلامی اصولوں کی روح کو بری طرح نظر انداز کیا گیا اور پھر ضیا دور میں جس طرح سے چند ادارے اسلامی نوعیت کے قائم کیے گئے وہ بھی بااختیار نہیں تھے‘ پاکستان میں سماجی عدم مساوات، سیاسی عدم استحکام اور معاشی تفریق نے ایسی مایوس کن فضا قائم کر دی ہے کہ ہم اپنے آزادی کے مقاصد سے صدیوں کے فاصلے تک آ گئے ہیں‘ سیاسی جمہوری حکمران ہوں یا با وردی آمرانہ ادوار سب نے ہی ریاست میں اسلام کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا‘ اس دوران نام نہاد اسلامی سیاسی جماعتوں نے بھی کوئی مخلص کردار ادا کرنے کے بجائے محض اقتدار میں اپنے مختص کردہ حصے پر ہی اکتفا کیے رکھا‘ عوام کی تربیت اور ذہن سازی اس ضمن میں بالکل نہیں کی گئی اور مجموعی طور پر ہم بے عمل مسلمان اور فرقہ پرست انتہا پسند ہجوم بنتے چلے گئے‘ ہماری اشرافیہ کے لیے یہ سرزمین محض اقتدار کی چراگاہ بن چکی ہے جس کی اصلاح کی کوئی مخلص کوشش ان سے تو عبث ہے لہٰذا علمی دینی حلقوں کی ذمے داریوں میں بے پناہ اضافہ ہو جاتا ہے کہ وہ عوام کی دینی طور پر تربیت بھی کریں اور حکومتی ایوانوں تک بھی اپنی آواز پہنچائیں اور محض اسلامی نوعیت کی قانون سازی پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ ان کے بہتر نفاذ کی بھی جدوجہد کی جائے۔ ماہ پارہ کمال کا کہنا تھا کہ قوم بری طرح سے جاگیردارانہ نظام میں جکڑ دی گئی ہے‘ اب تو حالت زار یہ ہے کہ نواب، سردار، خان اور وڈیرے عوام کی تقدیر لکھ رہے ہیں‘ اسلام کے نام پر ہم نے ملک توحاصل کر لیا مگر بدقسمتی سے ہم اس کو اسلامی سانچے میں ڈھال نہیں سکے‘ہم نے پاکستان کو اسلامی مملکت بنانے کی کوشش ہی نہیں کی اور اگر کبھی کی بھی ہے تو اس کا مقصد صرف اور صرف حصول اقتدار تھا‘ جب تک ہم نظریہ پاکستان کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کریں گے‘ اس وقت تک ہم پاکستان کو اسلامی مملکت کے سانچے میں نہیں ڈھال سکتے‘ اب بھی وقت ہے کہ ہم ان اصولوں کو تسلیم کرلیں جن اصولوں کی بنا پر پاکستان معرض وجود میں آیا ہے تاکہ ان مقاصد کی تکمیل ہو سکے یعنی عوام کی رائے کا احترام کیا جائے اور امور مملکت میں عوام کو شریک کیا جائے کیونکہ یہ پاکستان عوام کے ووٹوں کا ہی مرہون منت ہے ‘ ہم نے خدا اور اس کے رسولؐ سے عہد کیا تھا کہ اس مملکت خدا داد میں اسلامی قوانین رائج کریں گے ہمیں سوچنا چاہیے کہ کیا ہم نے اپنا عہد پورا کیا ہے؟ بحیثیت قوم ہمیں اپنا عہد یاد کرنا چاہیے‘ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمیں بہت دیر ہو جائے اور جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ خدا نے اس قوم کی حالت نہیں بدلی جس کو اپنی حالت خود بدلنے کا خیال نہیں ہوتا۔