مزید خبریں

ادب سے محبت رکھنے والا شخص نرم گو حساس ،خوش گفتار اور پرسکون ہوگا ہے

کراچی (رپورٹ: حماد حسین) ادب سے محبت رکھنے والا شخص نرم گو، حساس، خوش گفتار اور پرسکون ہوتا ہے‘ باادب با نصیب، بے ادب بے نصیب‘ کتابیں پڑھنے سے بہتر ادب سیکھنا اور سکھانا ہے‘ یہ رواداری، محبت اور یگانگی کی فضا قائم کرتا اور لوگوں کے گفتار و کردار کی عکاسی کرتا ہے‘ ترقی کی منازل طے کرنے کے لیے ادب کے ذریعے ہمیں سوچنے کے نئے اور منفرد زاویے ملتے ہیں‘ ادب کے لغوی معنی تہذیب کے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار بے نظیر بھٹو شہید یونیورسٹی لیاری کے شعبہ تعلیم کی انچارج اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر صائمہ محمود، آل پاکستان پرائیویٹ اسکول اینڈ کالج ایسوسی ایشن کے چیئرمین حیدر علی اور شعبہ تعلیم و تربیت سے17 سال سے وابستہ اور لیڈ کی ڈائریکٹر کنول فواد نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’زندگی میں ادب کی اہمیت کیا ہے؟‘‘ صائمہ محمودکا کہنا تھا کہ ادب کے لغوی معنی تہذیب کے ہیں یعنی ہمارا اٹھنا بیٹھنا، چلنا پھرنا، بات کرنا اور رہنا سہنا سب میں ادب شامل ہے‘ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک مثالی انسان بننے کے لیے ادب کا ہونا بہت ضروری ہے‘ ادب کے بغیر زندگی بے معنی ہے‘ ایک مشہور کہاوت ہے۔ باادب با نصیب، بے ادب بے نصیب۔ زندگی کو بہتر طریقے سے گزارنے کے لیے آپ کو سلیقہ مند، با اخلاق اور باادب ہونا پڑے گا‘ جب ہم اپنے اسلاف کی زندگی کی طرف دیکھتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ وہ کتنے باادب اور نرم گو تھے‘ 70کتابیں پڑھنے سے بہتر ہے کہ ہم لوگ ادب سیکھیں اور سکھائیں‘ علم سیکھنے سے پہلے ادب سیکھنا ضروری ہے۔ بقولِ علامہ اقبال ، ’’حسن کردار سے نور بے مجسم ہو جائے کہ بلیس بھی تجھے دیکھے تو مسلمان ہو جائے‘‘۔ اگر لوگ ایک دوسرے کا ادب نہ کریں تو زندگی میں بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے۔ حتیٰ کہ عزت بھی محفوظ نہیں رہتی۔ بطورِ مسلمان ہمیں آداب زندگی کے بارے میں پتا ہونا چاہیے‘ رب العالمین کا ادب کیسے کرنا ہے‘ والدین، بزرگوں اور چھوٹوں کا ادب کیسے کرنا ہے۔ بقولِ علامہ اقبال ،’’یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی، سکھائے کس نے اسماعیل کو آدابِ فرزندی‘‘۔ علامہ اقبال تو محبت میں بھی ادب کے قائل تھے‘ ہمارے معاشرے میں بے راہ روی اور بد کاری پروان چڑھنے کی وجہ بھی ادب کی کمی ہے‘ ہمیں معلوم ہی نہیں ہوتا کہ کس سے کیسے بات کرنی ہے کیسے بیٹھنا ہے اور کیسے جواب دینا ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں بہت بگاڑ پیدا ہو گیا‘ ہم سب کو اپنے اخلاق بہتر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ معاشرہ صحیح معنی میں ترقی کر سکے اور ہماری زندگی خوشگوار ہو سکے۔ حیدر علی کا کہنا تھا کہ زندگی میں ادب کی اہمیت بہت زیادہ ہے کیونکہ ادب انسانی ذہن کو بہترین خیالات دیتا ہے‘ ادب افراد اور اقوام میں جوش و جذبے کو پیدا کرنے کا ذریعہ ہے ‘ ادب سماجی رویے کو بہت بہتر کرنے کا طاقتور ذریعہ بن سکتا ہے‘ زندگی کے حساس مسائل کو اجاگر اور ان کا حل پیش کرتا ہے‘ مستقبل کی ترقی کے راستے روشن کرتا ہے۔ کنول فواد کا کہنا تھا کہ ادب ایک حقیقت اور ایسا آئینہ ہے کہ جس میں انسان نہ صرف اپنا بلکہ اپنے اردگرد کے لوگوں کا، ہونے والے واقعات اور گزر جانے والے حالات کا عکس دیکھتا ہے‘ ادب نہ صرف ہماری زندگی کو حقیقت کے قریب تر کرتا ہے بلکہ مسائل کا حل نکالنے میں ہماری رہنمائی کرتا ہے‘ ادب نہ صرف ہمیں اندازِ بیان دیتا ہے بلکہ وہ ہمیں زمانہ کی ثقافت، رویہ اور مزاج کے بارے میں آگاہی فراہم کرتا ہے‘ جب ہم کسی زمانے کے ادب کو پڑھتے ہیں تو ہمیں اس وقت کے مسائل، سماج اور حالات سے آگاہی ملتی ہے‘ مختلف ادیب اور ادب کے ذریعہ ہمیں نہ صرف سوچنے کے نئے اور منفرد زاویے ملتے ہیں بلکہ ہم اس قابل ہوتے ہیں کہ ان کا تجزیہ کرتے ہوئے اپنی رائے اور سوچ کو ایک مخصوص راستہ اور منزل دے سکیں۔ جب ایک فرد اپنے آپ کو ایک اچھے ادب سے متعارف کراتا ہے تو وہ اپنے آپ کو یہ موقع دیتا ہے کہ وہ اپنے اردگرد ہونے والے واقعات اور موجود افراد کا کھلے دل و دماغ سے جائزہ لے‘ وہ خود کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ بڑی سے بڑی اور باریک سے باریک بات کی اہمیت کو سمجھے اور نتائج اخذ کرسکے۔ نہ صرف معاشرے کا جائزہ لے بلکہ اپنے آپ کا جائزہ لیتے ہوئے معاشرے میں اپنے مثبت کردار کو سمجھ سکے‘ ادب سے محبت رکھنے والا شخص نرم گو، حساس، خوش گفتار اور پُرسکون ہوتا ہے۔ اس کا اٹھایا جانے والا ہر قدم نہ صرف اپنے لیے بلکہ راہ میں چلنے والے ہر شخص کے لیے باعث فخر ہوتا ہے‘ ایسا شخص نہ صرف اپنی راہ کی رکاوٹوں کو ہٹانے کا ہنر جانتا ہے بلکہ اپنے ساتھ چلنے والے ہر شخص کو بخوبی شامل سفر رکھ سکتا ہے کیونکہ یہ شخص احساس، محبت اور رحم کے معنی نہ صرف سمجھتا ہے بلکہ جیتا ہے‘ تو ذرا سوچئے کہ جب معاشرے کے افراد علم و ادب کے قریب ہوں گے تو ایسا معاشرہ کتنا خوبصورت ہوگا‘ ہر طرف ہمدردی، رواداری، محبت اور یگانگی کی فضا قائم ہوگی اور ہم صحیح معنی میں ایک مثالی معاشرہ قائم کرسکیں گے۔