مزید خبریں

مزدور کے خوابوں کی خرید و فروخت اور معیشت کی بحالی

1930 کے عشرے میں وْہی ممالک عالمی کساد بازاری سے جلد از جلد جان چْھڑانے میں کامیاب ہوئے جنہوں نے ہر قیمت پر اپنی معیشت کو حرکت میں رکھا۔ چاہے اس کے لیے بلا ضرورت سڑکیں اور پل ہی بڑی تعداد میں بنانے پڑے اْن مملک میں سے ایک آدھ نے بنائے بھی۔ اس طرح عوام کو روزگار مل گیا اور کنسٹرکشن انڈسٹری اور اس کے ساتھ جڑی ہوئی بے شمار الائیڈ صنعتیں اپنے پاؤں پر کھڑی ہو گئیں اور مزکورہ مْلک گریٹ ڈپریشن سے نکل آیا۔ کئی ممالک نے عوام کو روزگار دینے کی نیت سے جنگی اسلحہ دھڑا دھڑ بنانا شْروع کر دیا جو تیاری کے بعد یا تو استعمال میں لایا گیا یا پھر بیچا گیا۔ شاید اسی لیے گریٹ ڈپریشن کے خاتمے کے ساتھ ہی بدقسمتی سے دوسری عالمی جنگ چھڑ گئی اور بے شمار یوروپین لوگ جو عالمی کساد بازاری سے تو بچ گئے لیکن جنگ کی نظر ہو گئے۔ لیکن معیشت کو ہر قیمت پر حرکت میں رکھنے والے مملک بہر حال گریٹ اکنامک ڈپریشن سے دوسروں کی نسبت جلد نکل گئے۔
پاکستان کے جسد معاشی سے آج جو خْون رس رہا ہے کیا پچھلے 75 سالوں سے صورت حال یہی تھی یا اس موجودہ مْلکی معاشی صورتحال کے قصوروار پاکستانی عوام کے علاوہ چند خواص بھی ہیں۔ یا پھر اس کے قصْوروار صرف چند خواص ہی ہیں۔ اس کا تعین کرنے کے لیے ایک حقیقت کو ذہن میں رکھنا لازم ہے اور وْہ یہ کہ ہر دور میں کْچھ لوگ مجموعی قومی لیڈرشپ کا حصہ ہوتے ہیں۔ سیاسی لیڈرشپ ، مذہبی لیڈرشپ ، ملٹری لیڈرشپ ، بنچ اور بار کی لیڈر شپ، اعلیٰ عدلیہ کی لیڈرشپ ، قومی معاصر اخبارات و جرائد اور الیکٹرانک میڈیا کے چینلز کے مالکان اور ان سے وابستہ مشہور صحافی ، بیوروکریسی کے اہم ستْون ، چیمبر آف کامرس کے اہم عْہدیداران اور سول سوسائٹی کے معتبر نام۔ یہ سب لوگ مل کر مجموعی قومی لیڈرشپ کہلاتے ہیں۔ یہ لیڈرز جب کوئی غلطیاں کرتے ہیں تو اس کی سزا ساری قوم کو ملتی ہے۔ کیونکہ قوم قصْوروار ہوتی ہے۔ جس نے اس قسم کے لیڈرز جنم دیے۔ صرف ملٹری لیڈرشپ ، جوڈیشل لیڈرشپ اور بیوروکریسی کی لیڈرشپ کا بدلنا ان اداروں کے بس میں نہیں ہوتا۔ ویسے بھی ان کو بدلنا ضروری بھی نہیں ہوتا کہ یہ اختیار عام عوام کا نہیں ہے کیونکہ ہر لیڈر اپنے ادارے میں عرصہ تیس سال سے زیادہ عرصہ ایک سینئر لیڈرشپ کے زیر کمان گْزار کر آیا ہوتا ہے اور آئینی طور پر اپنا وقت پْورا کرنے کا حق رکھتا ہے۔ ان کے علاوہ سیاسی لیڈرشپ اور تمام مکتبہ فکر کے عوامی حلقے تو اپنی لیڈرشپ کو خود مسند پر بٹھاتے ہیں اور روزانہ کی بْنیاد پر اْن کا احتساب بھی کرتے ہیں۔ اس لیے قومی لیڈرشپ جو بھی غلطیاں کرے گی اْس کی سزا پْوری قوم کو ملے گی۔
موجودہ صورتحال کے ذمہ داروں کا تعین کرنے کے لیے ہمیں 54سال پیچھے سے ایک بار تاریخ کا جائزہ لینا پڑے گا۔ پاکستان پہلی بار عالمی سْود خوروں کے پاس قرض کی درخواست لے کر 1958 میں گیا اور دوسری بار 1965 میں ، اس کا مطلب یہ کہ نو آزاد مملکت گیارہ سال اپنا بجٹ مْفلسی میں ہی سہی لیکن کامیابی سے بناتی رہی۔ پھر تھوڑی سی قرض کی سپورٹ لے کر سات سال اور نکال گئے۔ پہلے اٹھارہ سالوں میں مشرقی پاکستان کے بدنام زمانہ سیلابوں کی تباہ کاریوں کے باوجْود صرف دو بار عالمی سْود خوروں کے پاس جانا پڑا۔ اس کا مطلب ہے کہ 1947 سے لے کر 1965 تک قومی لیڈرشپ معاشی میدان میں کافی ٹھیک رہی اور کوئی کرپشن یا بڑی بددیانتی کہیں اس عرصے میں نظر نہیں آتی۔ 1965 سے 1980 تک کے پندرہ سال کے دور کی لیڈرشپ کو بھی قومی پیسہ لْوٹنے کی حرص نہیں تھی بلکہ صرف اقتدار کی مریضانہ حرص ہی ہر طرف دکھائی دی اور کوئی بڑی بددیانتی یا مالی سکینڈل سامنے نہیں آیا۔ 1980 سے 1990 تک مْلکی پیسہ افغان جہاد کی وجہ سے محفْوظ رہا۔ اس دور کی لیڈرشپ کی کرپشن کے ہوشرْبا اسکینڈل زبان زد عام ہیں لیکن صرف افغان جہاد کے پیسے سے ہی سب لْٹیرے لیڈروں کے پیٹ بھر گئے۔ اسے جہاد کی برکت کہیں یا قومی خوش قسمتی کہ پاکستان کا اپنا پیسہ محفْوظ رہا۔ افغان جہاد کی بھری ہوئی تجوریوں نے مْلکی خزانے کو بچائے رکھا۔
تو پھر ظاہر ہے کہ کہ مْلک کے معاشی ڈھانچے کے جتنے زخم آج رس رہے ہیں یہ سب عرصہ 1990 سے 2022 تک کے تیس بتیس سالوں کے درمیانی عرصے میں لگائے گئے ہیں۔ یہی وْہ دور تھا جب مْلک میں ہارس ٹریڈنگ کے الفاظ پہلی بار سْنے گئے۔ اسی دور میں نئی نسل کو سیاست میں چھانگا مانگا نظر آیا۔ اسی دور میں اسامہ بن لادن سے سے عورت کی حْکمرانی کے خلاف جہاد میں مالی تْعاون مانگا گیا۔ اسی دور میں مسٹر ٹین پرسنٹ مارکیٹ میں نمودار ہوئے۔ اسی دور میں دونوں بڑی پارٹیوں نے انتخابات میں بے دریغ پیسہ لگانے کے لیے اپنے ادوار میں بے دریغ پیسہ بنانے پر فوکس کیا۔ اسی زمانے میں مشرف دور کی رئیل اسٹیٹ کی قیمتیں عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوئیں اور ق لیگ کی سیاسی مفاد کے لیے بار بار باوردی صدر کو منتخب کرانے کے جتن آسمان کی آنکھ نے دیکھے۔ ، اسی دور میں پاکپتن سے آئی ہوئی ایک عدد پیرنی اور اْس کی ایک دوست فرح گوگی وزیراعظم ہاؤس میں بیٹھ کر دم درود کرتیں اور بْزدار کے ذریعے سارا پنجاب کنٹرول کرتی رہیں۔ اسی دور میں مقابلے کے امتحان پاس کرنے کے باوجود افسروں کو سیٹوں کے حصول کے لیے پیرنی گوگی اور بْزدار گٹھ جوڑ پر چڑھاوے چڑھانے پڑے اور نذریں اتارنی پڑیں۔ اسی دور میں قومی لیڈرشپ اپنی شوگر ملوں میں چینی ذخیرہ کرکے عوام کو بچوں کے دودھ کے لیے بھی چینی کے لیے تر سارتے رہے۔ آج کسی ماتھے پر شکن نہیں آتی جب یہ کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں تاجر ملاوٹ کرتے ہیں اور ناپ تول میں کمی کرتے ہیں۔ جو لْوٹ مار لیڈر شپ نے مچائی ، عوام بجائے اس کے کہ اس کو روکتی ، خود بھی سر سے پاؤں تک کرپشن اور رشوت کلچر میں لْتھڑ گئی۔ آج اگر کوئی گاہک کسی دْکاندار سے خالص دْودھ کا تقاضہ کر دے تو شاید سْننے والے اْسے دْشمن مْلک کا جاسْوس سمجھ کر پکڑ لیں کہ پاکستان کا رہنے والا ہوتا تو کم از کم اتنا تو جانتا کہ یہاں ملاوٹ شْدہ دْودھ ہی بکتا ہے۔
قومی لیڈر شپ نے تیس سال بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھوئے اور پْوری قوم کرپشن کے سمندر میں غوطہ زن ہو گئی۔ ملازمین رشوت سے مال بنانے میں لگ گئی، تاجر ملاوٹ کرنے لگے اور کارخانہ دار مزدوروں کے استحصال میں لگ گئی۔
مْلک کے نامور ادارے تباہ ہو گئے، واپڈا ، پاکستان اسٹیل، پی آئی اے ، نیشنل بنک ، پی ٹی وی سب اسی دور میں انحطاط کا شکار ہوئے۔
پچھلے 32سالوں میں زیادہ تر سیاستدان ، صحافی ، جج، جرنیل ، اور تمام مجموعی قومی لیڈرشپ ان زخموں کی ذمہ دار ہے جو آج مْلک کے معاشی ڈھانچے کو سرطان بن کر چْمٹے ہوئے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ وْہ ساری کی ساری لیڈرشپ یا اْن کی اگلی نسلیں آج بھی حکومتی اتحاد یا اپوزیشن پارٹیوں کی شکل میں قوم کے سروں پر اور اعصاب پر سوار ہے۔ یعنی قوم آج بھی مجبور ہے کہ اْسی عطار کے لونڈے سے دوا لے جن کے سبب بیمار ہوئی تھی۔
صورتحال میں قوم کے بچے لاتعلق ہو گئے تو کیا انہونی ہو گئی ، قوم کا برین ڈرین ہو گیا تو کیا عجب ہو گیا ، قوم کے بزْرگ کانوں کو ہاتھ لگا کر آخرت کی فکر کرنے لگے تو کیا ہوا ، قوم کو پالنے والا مڈل کلاس طبقہ گومگو میں ہے اور ہو نقوں کی طرح ادھر اْدھر دیکھ رہا ہے کہ کوئی مسیحا آئے، پر کہاں سے۔ کرپٹ قومیں لیڈر پیدا کرنے میں بانجھ ہوتی ہیں وہاں لْٹیرے ہی نام نہاد لیڈرز ہوتے ہیں۔ آج مجوعی قومی لیڈرشپ کی اکثریت وْہی ہے یا اْنھی کی نسل ہے جنہوں نے مْلک کو معاشی طور پر زخم دیے۔ نئے لیڈرز کہاں سے اچانک پیدا کر دے قوم جبکہ قوم ابھی خود بھی مْتفق نہیں ہے کہ پرانے لیڈرز میں واقعتا’’ کوئی فالٹ ہے بھی یا ایسے ہی شور ہے۔ قوم چونکہ خود کرپٹ ہے لہٰذا کرپٹ لیڈروں کا احتساب کرتے ہوئی ہمیشہ سخت سْستی کا مثاہرہ کرتی ہے۔
یہاں تک تو ہم نے مْجرموں کا تعین کر لیا اب سزا اور جزا کا فیصلہ کرنا نہ تو ہمارے عدالتی نظام میں ممکن ہے نہ ہماری عزت مآب عدلیہ کی تاریخ اتنی سنہری ہے کہ اس سے کوئی اْمید رکھی جا سکے۔ سزا اور جزا کا فیصلہ یا تو خْدا کی ذات کر سکتی ہے یا عوام کے ووٹ۔ میرا اپنی قوم کو مْخلصانہ مشورہ یہ ہے کہ مْجرموں کے جرائم کو اللہ کی عدالت میں مقدمے کی صْورت میں دائر کر کے آئندہ ووٹ سوچ سمجھ کر دینے کا حتمی فیصلہ کر لیں۔ ان مْشکل حالات میں زیادہ سے بچت کرنے کی عادت کو اپنائیں۔ اس مْشکل گھڑی میں وْہی اتحاد ، جز بہ اور ملی یگانگت اپنانے کی ضرورت ہے جو ہمارے بزْرگوں نے 1965 کی پاک بھارت جنگ کے موقع پر اپنایا تھا۔ یہاں حکومت وقت کی ذمہ داری بڑی اہم ہے۔ حکومت نے قوم کو اس بْرے وقت میں نہ صرف قومی قیادت فراہم کرنی ہے بلکہ قوم کو مجموعی طور ہر مْثبت سرگرمیوں میں مصروف بھی رکھنا ہے۔ کیونکہ مْثبت سرگرمیاں ہی معاشی طور پر پیداواری ہوتی ہیں۔ اور معاشی جنگ مجموعی قومی پیداوار کو بڑھا کر ہی جیتی جا سکتی ہے۔ حکومت وقت نے سیاسی مصلحتوں سے بلند ہو کر اپنا اعتماد عوام میں پْختہ کرنا ہے تاکہ عوام حکومت کی ہر بات پر بلاتامل کان دھریں۔ پوری قوم کو ایک معاشی جنگی مشینری میں تبدیل کیے بغیر مطلْوبہ نتائج حاصل نہیں کیے جا سکتے۔ نازیوں کے حملوں سے جب یورپ لہو لہان تھا تو چارلس ڈیگال اور ونسٹن چرچل نے نہ صرف اپنی قوم کی امید کی ڈور ٹْوٹنے سے بچائے رکھی تھی بلکہ قوم کے ایک ایک فرد کو ایک ہی دفاعی پھر کی میں پرو دیا تھا۔ تب کہیں جا کر نازی طیاروں کو بکنگھم پیلس کی اینٹ سے اینٹ بجانے سے باز رکھا جا سکا تھا۔