مزید خبریں

انصاف کے حصول کے لیے خواتین کردار ادا کریں ،فرحت پروین

نیشنل آرگنائزیشن فارورکنگ کمیونٹیز ( ناؤ کمیونٹیز) کے زیر اہتمام لیڈی ہیلتھ ورکرز کی ملازمت اور اس کے بعد کے حالات کا جائزہ لینے کے حوالے سے نیشنل آرگنائیزیشن فار ورکنگ کمیونیٹیز نے ایک سروے کا اہتمام کیا۔جس میں 200 خواتین شامل تھیں۔ جن کی بنیاد پر سروے رپورٹ کا اجراء عمل میں لایا گیا۔ رپورٹ کا اجراء دنوں آرٹس کونسل کراچی میں ہوئی جس میں محترمہ منگلا شرما (ممبر صوبائی اسمبلی)، علی حسن راجپر( ڈپٹی ڈائریکٹر لیبر)، بشری آرائیں ( صدر آل لیڈی ہیلتھ ورکرز پروگرام یونین)، سعید بلوچ ( جنرل سکرٹری فشر فوک فورم)، قاضی سراج (انچارج صفحہ محنت روزنامہ جسارت) ، سعدیہ بلوچ (پروگرام منیجر (ویمن وائس لیڈر شپ)، مہناز رحمان۔صدر (ناؤ کمیونٹیز) کے علاوہ لیڈی ہیلتھ ورکرز اور ALPU کی ممبران نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ نائو کمیونیٹیز کی چیف ایگزیکٹیو فرحت پروین نے سروے کے نتائج پر بریفنگ دی۔ پروگرام میں لیڈی ہیلتھ ورکرز کے انٹرویوز پر مشتمل ویڈیوز بھی پیش کی گئیں جن میں خواتین نے اپنی ملازمت کے حالات کار ، زندگی اور مشکلات و جدوجہد کے ساتھ ساتھ اپنی معاشی صورت حال بیان کی۔ تقریب سے محترمہ منگلا شرما ، علی حسن راجپر، قاضی سراج ، مرزا مقصود، سعید بلوچ، مہناز رحمان اور بشری آرائیں نے خطاب کیا جبکہ لیڈی ہیلتھ ورکرز نے سروے کے نتائج اور ویڈیوز پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے اسے سراہا اور اتفاق کیا کہ لیڈی ہیلتھ ورکرز پروگرام خواتین کے حوالے سے انقلابی پروگرام ثابت ہوا اور اس کا تمام کریڈٹ شہید بے نظیر بھٹو کو جاتا ہے جنہوں نے ماں اور بچے کو صحت کی بنیادی سہولت دہلیز تک پہنچانے جیسی سہولت کا آغاز کیا اور خواتیں کی بڑی تعداد کو اس ذریعے سے معاشی خود مختاری کی طرف گامزن کیا۔ تقریب میں شہید بے نظیر بھٹو کو تالیاں بجا کر بھرپور خراج عقیدت پیش کیا گیا۔ فرحت پروین نے سروے رپورٹ پر بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ 200لیڈی ہیلتھ ورکرز سے مختلف سوالات کے ذریعے ان سے ان کے کام کے حالات کا بطور خاتون دوہری ذمہ داریوں ، کام میں مشکلات ، معاشرتی رویوں ، خانگی زندگی اور ملازمت سے زندگی میں آنے والی تبدیلیوں سے متعلق پوچھا گیا۔ نتائج میں 64 فیصد نے بتایا کہ وہ گھر چلانے کے لیے ملازمت کر رہی ہیں۔ 85 فیصد نے بتایا کہ وہ اپنی تنخواہ خود خرچ کرتی ہیں جبکہ 51 فیصد کل گھریلو ماہانہ آمدنی کے خرچ کا بھی فیصلہ کرتی ہیں۔48فیصد نے جواب دیا کہ انہیں گھر میں معاشی فیصلوں کا اختیار ہونا چاہیے۔ صرف 21 فیصد خواتین نے اپنی آمدنی میں سے خود پر خرچ کر سکنے کا اقرار کیا۔ صرف 33 فیصد خواتین اپنی آمدنی سے بچت کر کے کچھ (اثاثہ جات) بنا سکی ہیں۔ باقی خواتین نے اپنی موجودہ آمدنی کو کم قرار دیتے ہوئے بتایا کہ اس میں بچت نہیں ہوتی۔کل لیڈی ہیلتھ ورکرز میں سے 54 فیصد خواتین کی اپنے والدین کے گھروں و جائیداد میں حصہ ملا لیکن ان میں سے 21 فیصد خواتین نے بتایا کہ وراثت میں حصہ مانگنے پر گھر کے مرد ناراض ہوتے ہیں۔ 100 خواتین نے بتایا کہ ان کے خیال میں پاکستان میں خواتین پر تشدد کیا جاتا ہے جبکہ 34 فیصد کا خیال ہے کہ مرد بھی تشدد کا شکار ہو سکتے ہیں۔ کل 63 فیصد خواتین کا یہ کہنا تھا کا وہ کبھی نہ کبھی تشدد کا شکار ہوئی ہیں۔ان میں سے 48 فیصد خواتین نے بتایا کہ ملازمت میں بہتری کے بعد تشدد میں کمی ہوئی ہے۔ 97 فیصد خواتین کا یہ ماننا ہے کہ خواتین کی معاشی خودمختاری انہیں تشدد سے بچاتی ہے۔ لیکن 30 فیصد خواتین نے بتایا کہ ان کے پاس ریٹائرمنٹ کے بعد معاشی خودمختاری کو قائم رکھنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہوگا۔ اکثریتی خواتین نے بتایا کہ انہیں علم ہے کہ خواتین کے حقوق ہیں اور ان کے قوانین بھی بنائے گئے ہیں مگر انہیں عمل درآمد کروانے والے اداروں سے متعلق معلومات نہیں ہیں۔ خواتین نے ناؤ کمیونٹیز اور یونین کی جانب سے منعقد کردہ ٹریننگز کو بھی سراہا اور کہا کہ اس کی وجہ سے انہیں سیکھنے کا موقع ملا انہوں علم اور آگاہی کے سلسلے کو مستقل طور پر جاری رکھنے کی ضرورت پر زور دیا۔