مزید خبریں

ہبہ میں برابری کا مسئلہ

سوال: ایک شخص کے چار بیٹے تھے۔ اس نے اپنی زندگی میں ایک بیٹے کی ضرورت کو دیکھتے ہوئے اسے ایک بڑی رقم دی، جس سے اس نے ایک گھر خرید لیا۔ دوسرے بیٹوں کو کچھ نہیں دیا۔ کیا باپ کے مرنے کے بعد اس کی وراثت چاروں بیٹوں کے درمیان تقسیم ہوگی، یا جو بیٹا اپنے باپ کی زندگی میں اس سے بڑی رقم پا چکا تھا اس کو الگ کرکے وراثت صرف باقی تین بیٹوں کے درمیان تقسیم ہوگی؟
جواب: کوئی شخص اپنی زندگی میں اپنے مال یا کسی چیز کا دوسرے کو بلاعوض مالک بنادے، اسے اصطلاح شریعت میں ’ہبہ‘ (gift) کہتے ہیں۔ آدمی جس چیز کا مالک ہو اس پر اسے تصرّف کرنے کا پورا اختیار رہتا ہے۔ اس بناپر وہ اسے ہبہ بھی کرسکتا ہے۔
اولاد کو ہبہ کرنے کے سلسلے میں شریعت نے یہ رہنمائی کی ہے کہ عام حالات میں سب کو برابر دیا جائے۔ اس سلسلے میں سیدنا نعمان بن بشیرؓ سے مروی حدیث بہت مشہور ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ میرے باپ نے مجھے ایک ہدیہ دیا تو میری ماں نے ان سے کہا کہ اس پر رسول اللہؐ کو گواہ بنالیجیے۔ وہ مجھے لے کر آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور تفصیل بتائی۔ آپؐ نے دریافت کیا: ’’کیا تم نے اپنی تمام اولاد کو یہ ہدیہ دیا ہے؟ انھوں نے جواب دیا: ’’نہیں‘‘۔ تب آپؐ نے فرمایا: ’’اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف سے کام لو‘‘۔ یہ سن کر میرے باپ نے اپنا ہدیہ واپس لے لیا۔ (بخاری، مسلم)
اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں اپنی اولاد کو ہبہ کرنے میں برابری کا معاملہ نہ کرے، کسی کو دے اور دوسروں کو محروم رکھے تو اس کا کیا حکم ہے؟ اس سلسلے میں فقہا کے درمیان اختلاف ہے:
احناف، مالکیہ اور شوافع کہتے ہیں کہ اولاد کو برابر ہبہ کرنا مستحب ہے، واجب نہیں ہے۔ اس کی دلیل وہ یہ دیتے ہیں کہ نعمان بن بشیرؓ سے مروی حدیث کی ایک روایت میں ہے کہ جب ان کے والد نے اللہ کے رسولؐ سے عرض کیا کہ میں نے اپنے اس بیٹے کو فلاں چیز ہبہ کی ہے، آپؐ اس پر گواہ بن جائیے تو آپ نے فرمایا: ’’اس پر کسی اور کو گواہ بنالو‘‘۔ (مسلم) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہبہ کرنے میں اولاد کے درمیان فرق کرنا پسندیدہ نہیں، لیکن جائز ہے۔ یہ حضرات دلیل میں وہ واقعات بھی پیش کرتے ہیں کہ سیدنا ابوبکرصدیقؓ نے اپنی اولاد میں سے صرف سیدہ عائشہؓ کو اور سیدنا عمرفاروقؓ نے اپنی اولاد میں سے صرف عاصم کو بعض ہدایا دیے تھے۔
بعض دیگر فقہا، مثلاً حنابلہ، احناف میں سے قاضی ابویوسف، ابن مبارک، طاؤوس اور (ایک روایت کے مطابق) امام مالکؒ کہتے ہیں کہ ہبہ کے معاملے میں تمام اولاد کے درمیان برابری کا معاملہ کرنا واجب ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی ایک اولادکو کوئی چیز ہبہ کرے گا اور دوسروں کو محروم رکھے گا، یا ان کے درمیان ہبہ کرنے میں کمی بیشی کرے گا تو گناہ گار ہوگا۔ اس پر لازم ہے کہ اس نے اپنی ایک اولاد کو جو چیز ہبہ کی ہے اسے واپس لے لے، یا دیگر تمام اولادوں کو بھی وہ چیز ہبہ کرے۔ یہ حضرات بھی دلیل میں سیدنا نعمان بن بشیرؓ سے مروی مذکورہ حدیث پیش کرتے ہیں کہ اس کی بعض روایتوں میں ہے کہ رسول اللہؐ کی تنبیہ کے بعد سیدنا نعمانؓ کے والد نے ہبہ واپس لے لیا تھا۔ (بخاری)
اس تفصیل سے درج ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں:
1۔ہبہ کے معاملے میں عام حالات میں برابری کا معاملہ کرنا چاہیے۔ ایک بیٹے کو زیادہ دینا اور دوسرے بیٹوں کو کم دینا، یا ایک بیٹے کو دینا اور دوسرے بیٹوں کو محروم کرنا صحیح نہیں ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے ایسا کرنے سے سختی سے منع کیا ہے۔
2۔مختلف اسباب سے اگر کوئی شخص ناگزیر حالات میں اپنی زندگی میں کسی بیٹے کو زیادہ دے تو ایسا کرنا اس کے لیے جائز ہے۔ اس سلسلے میں بہتر یہ ہے کہ وہ اپنے دیگر بیٹوں کو اعتماد میں لے کر ایسا کرے۔ اگر وہ ان کی موافقت سے ایساکرے گا تو اس کے تعلق سے ان کے حسن سلوک میں کچھ فرق نہیں آئے گا۔ نعمان بن بشیرؓ سے مروی مذکورہ حدیث کی بعض روایتوں میں ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے نابرابری سے روکتے ہوئے فرمایا تھا: ’’کیا تمھیں اس سے خوشی نہ ہوگی کہ وہ سب تمھارے ساتھ برابر حسن سلوک کریں‘‘۔ (مسلم)
3۔ اگر کوئی شخص عام حالات میں اپنی اولاد کو ہبہ کرنے میں نابرابری کرتاہے،کسی کو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ دیتا ہے تو اس کی یہ تقسیم نافذ ہوگی۔ جس بیٹے کو وہ کوئی چیز دے اور اس کا اس پر قبضہ ہوجائے تو وہ اس کا مالک بن جائے گا۔
4۔باپ کے مرنے کے بعد اس کی وراثت اسلامی قانون کے مطابق تمام زندہ ورثا کے درمیان تقسیم ہوگی اور وہ بیٹا بھی حصہ پائے گا جسے باپ اپنی زندگی میں ایک بڑی رقم دے چکا تھا۔ البتہ اس (بیٹے) کے لیے بہتر ہے کہ وہ دو صورتوں میں سے کوئی ایک صورت اختیار کرے: یا تو وہ وراثت میں سے اپنا حصہ نہ لے اور اسے باقی بھائیوں کے درمیان تقسیم ہوجانے دے، یا جو بڑی رقم اس نے اپنے باپ سے پائی تھی اسے مالِ وراثت میں شامل کرکے کل وراثت تمام ورثا کے درمیان تقسیم کرے اور اس کا جو حصہ بنتا ہو اسے لے لے۔ ایساکرنے سے وہ انصاف کا راستہ اختیار کرنے اور اپنے بھائیوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا اجر پائے گا۔