مزید خبریں

اجتماعی تقویٰ

ہم نے اس موضوع میں ’’اجتما عی تقویٰ‘‘ کے لفظ کو اختیا ر کیا ہے مگر یہ لفظ قرآن و سنت میں نہیں پایا جاتا۔ اس لحاظ سے یہ ایک نیا لفظ ہے‘ اور نیا لفظ اختیا ر کرنے کی کو ئی نہ کو ئی غرض ہونی چاہیے۔ اس کی غرض یہ ہے کہ تقویٰ کی زند گی کا وہ دا ئرہ جو اجتما عیت سے تعلق رکھتا ہے ہم اس کے بارے میں کچھ گفتگو کریں۔ اس لیے کہ یہ ایک ایسا دا ئرہ ہے جو عموماً نگاہو ں سے محو ہو چکا ہے اور تقویٰ کے حدود سے بھی باہر نکل چکا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حرام و حلا ل کا تصور بھی بہت محدود ہوگیا ہے۔ ہم جب حرا م اور حلا ل کا لفظ بو لتے ہیں تو حرا م کے ساتھ ہمارے ذہن میں سود‘ شراب ‘ زنا اور مالِ حرا م ‘ اس قسم کی چیزیں توآتی ہیں لیکن ذہن میں یہ بات بہت کم آتی ہے کہ معاملات میں‘ اور انسانوں کے ساتھ تعلقا ت میں‘ اور حقوق و فرا ئض کی ادایگی میں بھی بہت ساری چیزیں ایسی ہیں جو حرا م ہیں اور بہت ساری چیزیں ایسی ہیں جو نما ز اور زکوٰۃ کی طرح فرض کی گئی ہیں۔ خو ن بہانا‘ کسی کا حق مارنا‘ حسد کرنا‘ یہ سب چیزیں حرا م ہیں۔ غیبت کرنا بھی حرام ہے۔ مردار کھانا یقینا حرام ہے‘ اس لیے کہ قرآن نے کہا ہے کہ یہ حرام ہے۔ اسی طرح سور کا گوشت بھی حرام ہے لیکن غیبت کر نا بھی مردار گوشت کھا نے کے برابر ہے‘ اس لیے وہ بھی اسی طرح حرام ہے جس طرح دیگر چیزیں حرام ہیں۔ لیکن شراب کا جام دیکھ کر تو ہما رے اندر ایک کراہیت اور تنفر کی کیفیت پیدا ہوتی ہے اور کو ئی مسلمان یہ نہیں سوچ سکتا کہ وہ شراب کے جام کو ہا تھ لگائے یا سور کا گوشت کھائے یا وہ کو ئی اور اس قسم کی با ت کرے‘ اس لیے کہ یہ حرام ہیں‘ ان کو حدیث میں بھی حرام ٹھہرایا گیا اور قرآن میں بھی حرا م کیا گیا ہے‘ لیکن ہم غیبت کو اس طرح سے حرام نہیں سمجھتے ہیں۔
درحقیقت اگر قرآن یہ کہہ دے کہ یہ مت کرو تو وہ چیز حرام ہوجا تی ہے۔ سود کے بارے میں اس نے یہ کہا ہے کہ سود مت کھائو‘ تو سود حرام ہو گیا۔ شراب کے بارے میں کہا گیا کہ شراب کے قریب مت جا ئو تو شراب حرام ہوگئی۔ زنا کے بارے میں اس نے کہا کہ زنا کے قریب مت جائو تو زنا حرام ہوگئی۔ اسی طرح اس نے کہا کہ تجسس مت کرو‘ بدگما نی مت کرو‘ غیبت مت کرو‘ کسی کا تمسخر مت اڑا ئو‘ برے القاب سے مت پکارو‘ اور گالیاں نہ دو‘ یہ سارے کے سارے احکام بھی ویسے ہی احکا م ہیں‘ جس طرح قرآن میں نماز پڑھنے کا حکم ہے‘ زکوٰۃ دینے کا حکم ہے‘ چور کا ہا تھ کاٹنے کا حکم ہے‘ شراب سے رک جا نے کا حکم ہے اور سود نہ کھانے کا حکم ہے۔ ان کے درمیان قرآن مجید نے کوئی فرق نہیں کیا ہے‘ لیکن چونکہ یہ مشکل کام ہیں اس لیے آہستہ آہستہ یہ تقویٰ کی تعریف سے بلکہ حرام چیزو ں کی تعریف سے بھی خا رج ہو تے گئے اور آج کا ایک مسلمان جو اللہ کے دین کی پابندی کر رہا ہو وہ یہ تو نہیں سوچتا کہ میں شراب پی لوں‘ یا سور کا گوشت کھالوں مگر اس کو غیبت کرنے میں‘ جھوٹ بولنے میں‘ کسی کا حق مارنے میں‘ کسی کے ساتھ بدعہدی کرنے میں‘ کسی کے ساتھ برا سلوک کرنے میں کوئی عار محسو س نہیں ہوتی۔ ان گناہوں کے ارتکاب پر اس کے ضمیر میں معمولی سی خلش بھی پیدا نہیں ہوتی۔ اس کے اندر سے نفرت کی کوئی لہر اس طرح سے نہیں اٹھتی جس طرح کہ اور چیزو ں کے بارے میں ہوتی ہے۔ چونکہ تقویٰ کا یہ پہلو اجتما عی زندگی سے متعلق ہے‘ اس لیے ہم نے ’’اجتماعی تقویٰ‘‘ کی اصطلاح وضع کرکے اس کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔قرآن مجید سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ تقویٰ کی جتنی بھی اس نے تعریفیں کی ہیں ان کے اندر یہی پہلو سب سے اہم اور نمایاں ہے جس کو اس نے ہمارے سامنے رکھا ہے۔ سورہ البقرہ کی یہ مشہور آیت کہ:
’’نیکی یہ نہیں ہے کہ تم نے اپنے چہرے مشرق کی طرف کرلیے یا مغرب کی طرف‘ بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ کو اور یومِ آخر اور ملائکہ کو اور اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب اور اس کے پیغمبروں کو دل سے مانے اور اللہ کی محبت میں اپنا دل پسند مال رشتے داروں اور یتیموں پر‘ مسکینوں اور مسافروں پر‘ مدد کے لیے ہاتھ پھیلانے والوں پر اور غلاموں کی رہائی پر خرچ کرے ‘ نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے۔ اور نیک وہ لوگ ہیں کہ جب عہد کریں تو اْسے وفا کریں‘ اور تنگی و مصیبت کے وقت میں اور حق و باطل کی جنگ میں صبر کریں۔ یہ ہیں راست باز لوگ اور یہی لوگ متقی ہیں‘‘۔ (البقرہ: 177)
قرآن مجید نے جہاں جہاں بھی احکام کا ذکر کیا ہے‘ نکاح و طلاق کے احکام ہوں یا وراثت کے‘ یا اجتماعی زندگی سے متعلق‘ وہاں یہی کہا کہ اللہ کے رسولؐ سے اپنے آپ کو آگے نہ بڑھائو۔ واتقوا اللہ ’’اللہ سے تقویٰ اختیا ر کرو‘‘۔ اپنی آوازو ں کو اونچا نہ کرو‘ یہ بھی تقویٰ کی نشانی ہے۔ مجلس میں کہا جا ئے کہ پھیل جا ئو تو پھیل جا ئو‘ اور اگر کہا جا ئے کہ سکڑ جائو تو سکڑ جائو۔ جب کہا جا ئے کہ اٹھ جائو تو اٹھ جائو‘ یہ بھی بڑی نیکی ہے۔ یہ معمولی نیکیاں نہیں ہیں۔ یہ بھی اجتماعی اخلاق سے تعلق رکھتی ہیں۔ پھر وہ حکمران جو دوسرو ں پر جبر واستبداد کرتے ہیں ان کے لیے بھی یہی بات کہی گئی ہے کہ یہ بہت بڑا ظلم ہے اور اس کے خلاف بھی قرآن مجید نے ساری با تیں کھول کے بیان کی ہیں۔ اللہ کے جو نبی بھی آئے‘ انھو ں نے جہا ںاس بات کی دعوت دی کہ اللہ کی بندگی کرو کہ اس کے سوا کو ئی الٰہ نہیں ہے وہاں قرآن مجید نے ایک تواتر سے ہر نبی کی یہ دعوت بھی نقل کی ہے کہ ’’اللہ سے تقویٰ اختیار کرو اور میری اطاعت کرو‘‘۔ (آل عمران: 50) گویا اس کتاب سے مستفید ہونے کے لیے تقویٰ لازمی اور ناگزیر ہے۔