مزید خبریں

عبادت اور تعمیر سیرت

نماز اور خاص طور پر تہجد کی نمازاللہ تعالیٰ سے تعلق کو مضبوط بنانے میں بے حد موثر ہے۔ خدا کے ساتھ اخلاص‘ محبت‘ اعتماد اور بھروسے کی کیفیت پروان چڑھانے‘ نتائج اور انجام کو اللہ کے حوالے کر کے دین کی اشاعت اور اس کی اقامت میں ہمہ تن لگ جانے کے لیے انسان کو تیار کرنے میں تہجد کی نماز کا کردار غیرمعمولی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولؐ کو کارِ رسالت کی گراں قدر ذمے داری سے عہدہ برآ ہونے کے لیے تیاری کا جو پروگرام تجویز کیا اس میں قیام لیل سرفہرست تھا۔ فرمایا:
’’درحقیقت رات کا اٹھنا نفس پر قابو پانے کے لیے بہت کارگر ہے۔ اور قرآن ٹھیک ٹھیک پڑھنے کے لیے زیادہ موزوں ہے۔ دن کے اوقات میں تمھارے لیے بہت مصروفیات ہیں۔ اپنے رب کے نام کا ذکر کیا کرو اور سب سے کٹ کر اسی کے ہو رہو۔ وہ مشرق اور مغرب کا مالک ہے‘ اس کے سوا کوئی خدا نہیں‘ لہٰذا اسی کو اپنا سرپرست بنا لو‘‘۔ (المزمل: 6-9)
بنی اسرائیل نے خدا سے جو عہد کیا تھا اس کو پورا کرنے‘ راست روی‘ اظہار حق‘ اقامت صلوٰۃ‘ ایتاء الزکوٰۃ‘ امر بالمعروف ونھی عن المنکرکی بھاری ذمے داری ادا کرنے میں رب سے مدد طلب کرنے کی صورت انھیں یہ بتائی گئی:
’’صبر اور نماز سے مدد لو‘ بے شک نماز ایک سخت مشکل کام ہے مگر عاجزی کرنے والے بندوںکے لیے نہیں‘‘۔ (البقرہ: 45)
تحویل قبلہ کی اجازت نے صحابہؓ کی اسلامی جماعت کو ایک علیحدہ تشخص عطا کیا۔ اس نعمت کے ساتھ ایک دوسری بڑی نعمت کی بشارت بھی انھیں دی گئی۔ کہا گیا کہ اللہ تعالیٰ تمھارے دین کی تکمیل بھی فرما دے گا۔ اولاً نعمت کا شکر ادا کرنے اور دوسرے نعمت عالیہ کے لیے اپنے کو تیار کرنے کے لیے یہ ہدایت دی گئی:
’’مجھے یاد کیا کرو‘ میں تمھیں یاد رکھوں گا۔ میرے انعامات کا شکر ادا کرو‘ ناشکری مت کرو۔ اے ایمان لانے والو! نماز اور صبر سے مدد چاہو۔ بے شک اللہ صابرین کے ساتھ ہوتا ہے‘‘۔ (البقرہ: 152-153)
عبادات کا اسلامی زندگی میں کیا مقام ہونا چاہیے‘ اس کا صحیح جواب نبی کریمؐ اور آپ کے اصحابؓ کی سیرت ہی میں ملتا ہے۔ جہاں تک حضورؐ کا تعلق ہے یہ معلوم ہے کہ آپؐ پنج گانہ نمازوں کے علاوہ تہجد کا پابندی سے اہتمام فرماتے۔ ابتدا میں رات کا بیشتر حصہ قیام میں گزرتا حتیٰ کہ پائوں سوج جاتے۔ بعد میں مصروفیات بڑھیں تو آٹھ اور دس رکعتیں پڑھنے لگے۔ طلوع آفتاب کے بعد ضحی کی نماز اور مغرب کے کچھ دیر بعد چند رکعتیں پڑھتے۔ ضحی کی نماز کی تو قریبی اصحاب کو تاکید فرماتے۔
میں نماز کے بہت سے اسرار کا ذکر کر چکا ہوں۔ ایک اور کا ذکر یہاں کرنا ضروری ہے۔ حضورؐ سے پوچھا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی ساری خطائیں‘ اگلی اور پچھلی معاف کر دی ہیں۔ آپؐ اس قدر طویل نمازیں کیوں پڑھتے ہیں؟ فرمایا: ’’کیا میں خدا کا شکرگزار بندہ نہ بنوں‘‘۔ (مسلم)آپؐ پر اللہ تعالیٰ نے جو غیر معمولی اور بے شمار نعمتیں کی تھیں آپؐ اس طرح ان کا شکر ادا کرنا چاہتے تھے۔ ہمیں قرآن مجید کی یہ آیت بھی پیش نظر رکھنی چاہیے:
’’اگر تم شکر کرو گے تو میں تمھیں اور دوں گا‘‘۔ (ابرٰھیم: 7)
نمازوں کے علاوہ حضور صبح و شام‘ مختلف حالات اور مختلف مواقع کے ذکر کا اہتمام فرماتے۔ خود کرتے اور دوسروں کو ترغیب دیتے۔ زندگی کا ہر لمحہ خدا کی اطاعت اوراس کے کلمے کے اعلاء میں صرف ہوتا‘ لیکن اس کے باوجود یہ احساس آپؐ کو ہمیشہ رہتا کہ مجھے جو کرنا چاہیے تھا وہ نہیں کر سکا۔ چنانچہ دن میں سو سو بار استغفار فرماتے۔ آخری دنوں میں تو سجدے کی حالت میں بھی تسبیحات کے ساتھ بار بار معافی مانگتے۔ (کتاب التفسیر) جب قرآن کی وہ آیات پڑھتے یا سنتے جن میں رسالت کی ذمے داریوں کے بارے میں سوال کا ذکر ہے تو آنکھیں اشکبارہو جاتیں۔ (الطبقات الکبریٰ‘ ابن سعد) راہِ خدا کی تکلیفیں جب حد سے بڑھ جاتیں تو نماز کا سہارا لیتے۔ فرماتے: ’’نماز میں میرے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک رکھی گئی ہے‘‘۔ (سنن النسائی)آپؐ کے اصحاب کا حال مختلف نہیں تھا‘ سیدنا ابوبکرؓ کو لیجیے۔ آپ راتوں میں دیر تک قیام کرتے‘ جب قرآن کی تلاوت کرتے تو گریہ طاری ہو جاتا۔ آخرت کی جواب دہی کا احساس اس قدر شدید تھا کہ ہرا بھرا درخت دیکھتے تو کہتے کاش اس جیسا ہوتا کہ جواب دہی نہ کرنی پڑتی۔ (خلفاے راشدین‘ معین الدین ندوی)
ایک روز رسولؐ اللہ نے صحابہ کرامؓ سے پوچھا کہ آج تم میں سے روزہ سے کون ہے؟ سیدنا ابوبکرؓ نے کہا: میں ہوں۔ آپؐ نے فرمایا: آج کس نے جنازے کی مشایعت کی؟ کس نے مسکین کو کھانا کھلایا؟ کس نے مریض کی عیادت کی؟ ان سارے سوالوں کے جواب میں جو زبان گویا ہوئی وہ سیدنا ابوبکرؓ کی تھی۔ نبیؐ نے ارشاد فرمایا: جس نے ایک دن میں اتنی نیکیاں جمع کی ہوں وہ یقینا جنت میں جائے گا‘‘۔ (مسلم) خلیفہ ہونے کے بعد بھی یہ معمولات جاری رہے‘ اگرچہ مصروفیات کی وجہ سے ان میں کمی آگئی۔ آپ کی سیرت کے اس انتہائی مختصر تذکرے میں بھی زندگی کی ہمہ جہتی تکمیل کی ایک جھلک دیکھی جا سکتی ہے جو اسلام کے پیش نظر ہے۔