مزید خبریں

…زندیق کون شخص ہے

فقہا کے ہاں زندیق کی تعریف میں مختلف اقوال ملتے ہیں، اس لیے فتاوی شامیہ اور حاشیہ الطحطاوی، جو درّ مختار کا حاشیہ ہے، اس میں جو شخص زندیق کی تعریف دیکھے گا، نتیجہ تک نہیں پہنچ پائے گا، ان متفرق اقوال میں سے ایک راجح قول کی تمیز کرنا مشکل ہے، لیکن متکلمین اسلام جن کا موضوع بحث ہی عقائد و نظریات ہوتے ہیں وہ اس باب میں فیصلہ کن گفتگو کرتے ہیں، اس لیے علامہ تفتازانیؒ نے شرح مقاصد میں زندیق کی جو تعریف لکھی ہے وہ زیادہ قابل اعتماد ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’جو شخص حضورؐ کی نبوت کو تسلیم کرتا ہو، شعائر اسلام کا اظہار کرتا ہو، مگر دل میں کفریہ عقائد رکھتا ہو (اور ان کا اظہار کرتا ہو)، وہ زندیق ہے‘‘۔ (شرح المقاصد، المقصد السادس:30/460) اس تعریف پر شبہ وارد ہوتا ہے کہ اس میں اور منافق میں کیا فرق ہے، دونوں ہی زبان اور عمل سے ایمان کا اظہار کرتے ہیں، مگر دل میں کفر رکھتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ منافق تو اعتقاداً ایمان رکھتا ہی نہیں، صرف اظہار کرتا ہے، جب کہ زندیق ایمان رکھنے کے ساتھ دیگر کفریہ عقائد پر بھی یقین رکھتا ہے۔
علامہ انور شاہ کشمیریؒ نے علامہ تفتازانی کی عبارت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
’’زندیق کے ’’ابطانِ عقائد‘‘ سے مراد کتمان (یعنی عقائد کا لوگوں سے چھپانا مراد نہیں) بلکہ اسلامی عقائد کے خلاف کوئی عقیدہ اپنا کر اسے اسلامی قرار دینا مراد ہے، زندیق اگر اسلامی عقائد قطعیہ کے برخلاف کوئی ایک دو عقائد بھی اپنائے گا کافر قرار دیا جائے گا‘‘۔ (اکفار الملحدین)
علامہ تفتازانی کی بیان کردہ تعریف اور علامہ کشمیریؒ کی توضیح کی تائید علامہ جصاصؒ کی اس عبارت سے بھی ہوتی ہے جس میں انہوں نے زندیق کی مثال میں اسماعیلی فرقے کو پیش کیا، (احکام القرآن للجصاص، البقرہ، ذیل آیت:102) جو اپنے کفریہ عقائد کو اسلامی عقائد بنا کر پیش کرتے ہیں، اسی کے ساتھ توحید الٰہی اور رسالت محمدیہ کا اقرار بھی کرتے ہیں۔
موسیٰ روحانی بازیؒ شرح بیضاوی کے مقدمے میں زندیق کی تعریف کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
’’میری تحقیق کے پیشِ نظر زندیق وہ ہے جو بظاہر اسلام کا مدعی ہو، لیکن لساناً یا عملاً اصولِ اسلام کو اور مسلمانوں کو نقصان پہنچا رہا ہو، خواہ مبطن کفر ہو یا نہ ہو‘‘۔ (مقدمہ شرح البیضاوی:2/259)
ان تصریحات سے معلوم ہوا کہ دورِ حاضر کے اعلانیہ کفریہ عقیدے رکھنے والے وہ گروہ جو خود کو مسلمان کہلواتے ہیں زندقہ کے حکم میں ہیں۔
زندیق کی توبہ
اگر زندیق توبہ کر لے تو مرتد کی طرح اس کی توبہ بھی قابلِ قبول ہوگی یا نہیں؟ اس پر تمام اہلِ علم کا اتفاق ہے کہ زندیق کا معاملہ مرتد سے زیادہ سخت ہے، کیوں کہ زنادقہ جس طرح درِ پردہ اسلام کی بنیادوں کو کھوکھلا کر کے امت کو جو نقصان پہنچا تے ہیں مرتد اس قدر نہیں پہنچا سکتا، اس لیے مرتد کی توبہ تو بالاتفاق قابلِ قبول ہے، مگر زندیق کی توبہ قبول کرنے میں اہلِ علم میں اختلاف پایا جاتا ہے۔
علامہ شامیؒ تو لکھتے ہیں: اگر زندیق بعد از گرفتاری بھی صدقِ دل سے توبہ کر کے دین پر قائم ہو جائے تو اس کی توبہ شرعاً و قانوناً قبول سمجھی جائے گی۔ (رسائل ابنِ عابدین: 1/321)
جب کہ علامہ ابن الہام نے فتح القدر میں لکھا ہے: زندیق کی توبہ قبول نہ کی جائے، اسے قتل ہی کیا جائے گا اور اسی کو ظاہر المذہب قرار دیا ہے۔ (فتح القدیر:6/91)
بہر صورت قتل کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اگر زندیق اپنے کفریہ عقائد سے باز نہ آیا تو کفر کی وجہ سے قتل کیا جائے گا اور اگر توبہ کر لی تو حد کی بنا پر قتل کیا جائے گا۔ ( الشرح الصغیر :4/438)
علامہ شامیؒ صاحبِ ہدایہ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ انہوں نے تجنیس میں لکھا ہے اگر زندیق اپنے زندقہ پن میں معروف اور زندقہ کی دعوت دیتا ہو، اگر وہ گرفتاری سے قبل اپنے اختیار سے توبہ کر لے تو اس کی توبہ قبول کر لی جائے گی اور اگر گرفتاری کے بعد توبہ کر لے تو اس کی توبہ ظاہری طور پر قبول نہیں کی جائے گی، اسے قتل کر دیا جائے گا۔ (ردالمختار: 3/296)
شوافع اور حنابلہ کے نزدیک زندیق کا سارا مال بیت المال میں جمع کر دیا جائے گا، مالکیہ کے نزدیک اس کے مسلمان ورثا میں تقسیم کر دیا جائے گا، حنفیہ کے نزدیک جو مال زندقہ پن میں کمایا تھا وہ بیت المال میں جمع کر دیا جائے گا، اس سے پہلے کی دولت مسلمان ورثا میں شرعی حصص کے موافق تقسیم کر دی جائے گی۔ (الفقہ الاسلامی وادلتہ :8/265،266)
زندیق کی توبہ کے متعلق ضروری وضاحت
زندیق کی توبہ کے قبول اور عدم قبول کی یہ ساری بحث دنیا کے ظاہری احکام کے تناظر میں ہے، اگر وہ سچے دل سے توبہ کرنے والا ہوگا تو آخرت میں بارگاہ الٰہی میں쿐놡