مزید خبریں

ممنوعہ فنڈنگ کیس ، یہ70 کی دہائی نہیں کہ پاگل پن میں کوئی کسی جماعت کو تحلیل کرے گا ، اسلام آباد ہائیکورٹ

اسلام آباد(خبر ایجنسیاں)اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس بابر ستار نے کہا ہے کہ یہ 70 کی دہائی نہیں کہ پاگل پن میں کوئی کسی جماعت کو تحلیل کرے گا۔اسلام آباد ہائی کورٹ میں پی ٹی آئی کی ممنوع فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی۔انور منصور نے دلائل دیے کہ رْولز میں غیر قانونی فنڈنگ کا صرف ایک ہی نتیجہ بتایا گیا ہے کہ صرف اور صرف فنڈز ضبط ہو سکتے ہیں، کسی جماعت کی معلومات پی پی او کے مطابق نہ ہو تو درستی کا موقع بھی دیا جاسکتا ہے اور الیکشن کمیشن دوبارہ معلومات درست کر کے جمع کرانے کا کہے گا۔وکیل پی ٹی آئی انور منصور نے بتایا کہ 2018 میں سب جماعتوں کے اکاؤنٹس کی اسکروٹنی شروع ہوئی لیکن الیکشن کمیشن نے صرف پی ٹی آئی کے خلاف کارروائی کی اور پی پی او 2002 کا قانون اپلائی کیا، اسکروٹنی کمیٹی نے مگر الگ قانون پر انحصار کر کے رپورٹ دی۔وکیل نے کہا کہ نصر نے رمیتا شیٹھی سے شادی کی، دونوں کے جوائنٹ اکاؤنٹ سے 13 ہزار ڈالر آئے لیکن الیکشن کمیشن نے خود تصور کر لیا کہ آدھی رقم رمیتا شیٹھی اور آدھی ان کے شوہر کی طرف سے تھی، 13 ہزار ایک سے 13 ہزار دوسرے سے آئے، پی ٹی آئی کے اپنے ایجنٹس کو فارن کمپنیاں دکھا دیا گیا ،یہ حقیقت تو ہم نے کبھی چھپائی ہی نہیں تھی کہ پی ٹی آئی کو ووٹن کرکٹ سے رقم 2013 میں آئی ، قانون میں یہ نہیں لکھا انفرادی شخص کے علاوہ کسی سے فنڈ نہیں لینا۔عدالت نے کہا کہ قانون میں لیکن یہ ضرور لکھا ہے کہ صرف انفرادی فنڈز لینے ہیں، کیا آپ الیکشن کمیشن کی آبزرویشن حذف کرانا چاہتے ہیں؟ یہ تو صرف ایک رپورٹ ہے یہ کوئی الیکشن کمیشن کا ایکشن تو نہیں، ابھی تک صرف شوکاز نوٹس ایشو کیا گیا ہے۔انور منصور نے کہا کہ یہ ایکشن ہی ہے، الیکشن کمیشن نے اسے آرٹیکل 17 کا معاملہ ڈکلئیر کیا ہے، وفاقی حکومت نے اس رپورٹ کی بنیاد پر ایکشنز شروع کردیے ہیں، ایف آئی اے ایکشن لے رہی ہے، ہم چاہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن نے دائرہ اختیار سے باہر جو کیا اس کو معطل کردیا جائے۔جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ یہ 70کی دہائی نہیں کہ پاگل پن میں کوئی کسی جماعت کو تحلیل کرے گا، آپ ہمیں صرف اپنے تحفظات بتائیں کیا ہیں۔ جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کے حقائق تو ہم جا کر ٹھیک نہیں کر سکتے، اسکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ کالعدم بھی قرار دیں تو حقائق چھپ نہیں سکتے، ایف آئی اے قانون کے مطابق اس رپورٹ کے بغیر بھی کارروائی کرسکتا ہے، انویسٹی گیشن کا یہ مطلب نہیں کہ سزا مل رہی ہے۔عدالت نے دلائل سننے کے بعد کیس میں الیکشن کمیشن کو 24 اگست کے لیے پری ایڈمیشن نوٹس جاری کرکے کیس کی سماعت 24 اگست تک ملتوی کر دی ہے۔