مزید خبریں

مزدور عدالتوں کو فعال کیا جائے

لیبر پرکٹیشنرز فرنٹ کے رہنما نادر خان نیازی، ارشد محمود، باچا منان، محمود حسین، طارق محمود، ملک نفیس، علی عذیر اور علی اکبر لغاری نے سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس، سیکرٹری محنت سندھ، سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اور کراچی بار ایسوسی ایشن کے عہدیداران کو خط روانہ کیا ہے جس میں ان کی توجہ سندھ لیبر کورٹس کو درپیش مسائل کی طرف مبذول کروائی ہے۔ کئی سالوں سے لیبر کورٹس انتہائی دگرگوں چلے آرہے ہیں اور آج تک اس کی طرف کوئی توجہ نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے سائلین خصوصاً مزدور در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ سندھ لیبر کورٹ نمبر 2۔ سندھ لیبر کورٹ نمبر 3 اور سندھ لیبر کورٹ نمبر 4 میں اسٹینو کی اسامی خالی پڑی ہے جس پر نہ تو ریٹائرڈ ہونے والوں کو ایکسٹینشن دی گئی اور نہ ہی کوئی نئی بھرتی کی گئی ہے جس کی وجہ سے سارہ کام ٹھپ ہوگیا ہے۔ سالوں سے زیر التوا مقدمات میں نہ تو گواہی ریکارڈ ہورہی ہے۔ نہ شارٹ آرڈر اور نہ ہی فیصلے ہورہے ہیں۔ لیبر کورٹس پر سالانہ کروڑوں روپے خرچ ہورہے ہیں لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہیں ہے۔ پہلے لیبر کورٹ کے ملازمین کے ٹرانسفر پوسٹنگ کے اختیارات سندھ لیبر اپیلیٹ ٹریبونل کے چیئرمین کے پاس ہوتے تھے جو روز مرہ یہ تمام معاملات دیکھتے تھے لیکن یہ اختیارات بھی ہائی کورٹ آف سندھ نے اپنے پاس رکھ لیے ہیں۔ پہلے یہ اختیارات جسٹس شاہد انور باجوہ
اور اس کے بعد جسٹس محمد علی مظہر کو دے دیے گئے لیکن ان کے جانے بعد سے اب کوئی پتہ نہیں کہ یہ اختیارات کس کے پاس ہیں۔ اس سلسلے میں ہماری گزارش ہے کہ فوری طور پر ان مسائل پر ایکشن لیا جائے۔ یا تو ریٹائرڈ ہونے والے اسٹینوز کو واپس کنٹریکٹ پر رکھا جائے اور یا نئے لوگوں کی تعیناتی عمل میں لائی جائے اور سندھ لیبر کورٹ کو مزید تباہی سے بچایا جائے۔ لیبر کورٹ پر خزانے سے کروڑوں روپے اخراجات آتے ہیں لیکن ایک اسٹینو کی نہ ہونے کی وجہ سے تمام اسٹاف بمعہ جج صاحبان حاضری لگوارہے ہیں اور تنخواہیں لے رہے ہیں۔ لیبر کورٹس کی اس حالت سے تو بہتر ہے کہ ان کو ختم کرکے یہ اختیارات سول عدالتوں کو دیے جائیں اور لیبر مقدمات کو عام عدالتوں میں شفٹ کیا جائے تاکہ لوگ انصاف سے مزید محروم نہ ہوں۔